بھارت سے تعلقات کی بہتری کے لیے ثالثی قبول ہوگی، شاہ محمود قریشی

شاہ محمود قریشی ، پاکستانی وزیر خارجہ تین دن کے دورے پر متحدہ عرب امارات میں ہیں۔ فائل فوٹو

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ اپنے تنازعات حل کرنے کے لیے متحدہ عرب امارت سمیت کسی بھی تیسرے فریق کی ثالثی قبول ہے۔ پاکستان کے اعلی سفارت کار نے یہ بات متحدہ عرب امارات کے تین روزہ دورے کے دوران اخبار خلیج ٹائمز سے انٹرویو کے دوران کہی ہے۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے، جب بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر بھی متحدہ عرب امارت کےدورے پر ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کی ایک ساتھ متحدہ عرب امارات کے شہر دوبئی میں موجودگی پر اس امکان پر قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان یہاں ملاقات ہو سکتی ہے یا نہیں۔ تاہم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ان کی اپنے بھارتی ہم منصب سے کوئی ملاقا ت طے نہیں ہے۔

خلیج ٹائمز سے انٹرویو میں شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشا کے دو ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی کم کروانے کے لیے متحدہ عرب امارت سمیت کسی بھی ملک کے مثبت کردار کو سراہے گا لیکن ان کےبقول اس بات کا فیصلہ جنوبی ایشیا کے عوام کو کرنا ہے کہ وہ اپنا مستقبل کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی متحدہ عرب امارات کے تین روزہ سرکاری دورے پر ہفتے کو دوبئی پہنچے جبکہ بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر بھی اتوار کو متحدہ عرب امارت پہنچے ہیں۔ اگرچہ پاکستان اور بھارت کے وزارت خارجہ کے عہدیدار ان دورے کا محور دو طرفہ تعلقات بتا رہے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کی ایک ہی وقت میں متحدہ عرب امارات میں موجودگی کی وجہ سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملی ہے کہ شاید اس موقع پر ان کی ملاقات ہو سکتی ہے۔ لیکن شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ ان دورے کا بھارت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

دوسری جانب بھارت کے وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم گاگچی بھی ایک ٹوئٹ میں کہہ چکے ہیں کہ بھارت کے وزیر خارجہ کا متحدہ عرب کے دورے کامحور دوطرفہ تعلقات ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ ایک ایسے وقت ایک ساتھ متحدہ عرب امارت میں موجود ہیں، جب حال ہی میں امریکا میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ نے ایک آن لائن کانفرنس کےدوران اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ان کا ملک بھارت اور پاکستان کے درمیان تناؤ کم کروانے کی کوشش کررہا ہے۔ ان کے بقول شاید یہ ممکن نہ ہو کہ پاکستان اور بھارت بہترین دوست بن پائیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان قابل عمل تعلقات قائم ہو سکیں۔

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے پاکستان اور بھارت کے ساتھ نہایت قریبی تعلقات ہیں، اس لیے خلیجی ملکوں کی خواہش ہے کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان بھی تناؤ اور کشیدگی کم ہو۔ ان کے بقول اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان تناؤ اور کشیدگی متحدہ عرب امارات کے لئے کسی طور سود مند نہیں ہے۔

شمشاد احمد خان نے بتایا کہ اگر ایک ہی وقت میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ متحدہ عرب امارات کا دورہ کررہے ہیں تو ایسا کسی طے شدہ پروگرام کےتحت ہی ممکن ہے۔ لیکن بعض اوقات سفارتی مصلحتوں کے تحت معاملات کو خفیہ رکھا جاتا ہے۔

دسری جانب، بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ امریکہ کا قریبی اتحادی ہونے کے ناطے متحدہ عرب امارات کا خطے میں اہم کردار ہے۔ اس لیے ان کے بقول، متحدہ عرب امارت پاکستان اور بھارت کو مذکرات کی میز پر لانے کے لیے تعمیری کردار ادا کر سکتا ہے۔

ظفر جسپال کے خیال میں، پاکستان اور بھارت چاہتے ہیں کہ کوئی تیسرا فریق ان کے باہمی تناؤ کو کم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے، کیونکہ تناؤ اور کشیدگی کا ماحول طویل عرصے تک جاری رکھنا نہ تو آسان ہے اور نہ ہی پاکستان اور بھارت کے مفاد میں ہے۔ اس لیے متحدہ عرب امارت کی کوشش ہےکہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان فعال تعلقات ہوں۔

ظفر جسپال کے بقول، پاکستان اور بھارت کے درمیان ماضی میں بھی فعال تعلقات موجود رہے ہیں اس لیے اب بھی ایسا ہونا ممکن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دو جوہری ممالک ایک خاص حد سے زیادہ اپنے اپنے معمول کے سفارتی تعلقات کو معطل نہیں رکھ سکتے ہیں اور کسی بھی حادثے سے بچنے کے لیے ان کے درمیان فعال ورکنگ ریلیشن شپ کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔

شاہ محمود قریشی کے بیان پر اب تک بھارت کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا،لیکن ماضی میں بھارت دونوں ملکوں کے درمیان کئی دیگر ملکوں کی ثالثی کی پیش کش کو مسترد رد کر چکا ہے۔

یادر ہے کہ اگست 2019 میں بھارت کی طرف سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی نیم خود مختار آئینی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے معمول کی سفارتی تعلقات تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ جب تک بھارت بات چیت کا ساز گار ماحول نہیں بناتا، نئی دہلی اور اسلا م آباد کے درمیان معمول کے تعلقات بحال نہیں ہو سکتے ہیں، جبکہ بھارت کو موقف ہے کہ دہشت گردی سے پاک ماحول ہی میں پاکستان سے بات چیت ہو سکتی ہے۔