پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے آڈیٹر جنرل کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں پشاور کے بس منصوبے (بی آر ٹی) میں کروڑوں روپوں کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
آڈیٹر جنرل کی حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ منصوبے کے لیے 220 میں سے 51 بسیں دو سال قبل خریدی گئیں جو نہ صرف غیر معیاری تھیں بلکہ انہیں انفراسٹرکچر تیار ہونے سے قبل ہی خرید لیا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قبل از وقت خریداری کی وجہ سے ان بسوں کی گارنٹی متاثر ہوئی جس سے سرکاری خزانے کو آٹھ لاکھ امریکی ڈالرز نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق بیٹریوں کی خریداری کی مد میں 33 ہزار 870 ڈالرز کا نقصان ہوا۔
میٹرو بس چلانے والی کمپنی ٹرانس پشاور کے ترجمان محمد عمیر خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں رپورٹ کو غیر مصدقہ قرار دیتے ہوئے مؤقف دینے سے گریز کیا۔
لیکن سابق صوبائی وزیر اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما مولانا امان اللہ حقانی کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ بالکل مصدقہ ہے اور اس میں بسوں کی خریداری میں خردبرد اور بدعنوانی کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اس بس منصوبے کے بارے میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی یہ دوسری رپورٹ ہے۔
اُن کے بقول پہلی رپورٹ میں اس منصوبے کے متعلق بدعنوانی اور خردبرد کے بہت سے انکشافات کیے گئے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ ایک ناکام منصوبہ ہے اور حکومت کو چاہیے کہ جس کمپنی سے بسیں خریدی گئیں اُسی کو یہ بسیں چلانے دے۔
آڈیٹر جنرل کی 2019 میں مرتب کی گئی رپورٹ اُس وقت سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آئی جب 16 ستمبر کو ایک بس میں آگ لگنے کی وجہ سے بس سروس کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا تھا۔
سروس کے آغاز کے بعد یہ چوتھا حادثہ تھا، جس کے بعد چین سے ماہرین کی ٹیم بسوں کے معائنے کے لیے بلائی گئی ہے۔
ٹرانس پشاور کے ترجمان محمد عمیر خان کے مطابق تحقیقات جاری ہیں اور اسی مقصد کے لیے چین کے 20 ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم پشاور میں موجود ہے۔
مولانا امان اللہ حقانی کی درخواست پر دسمبر 2018 میں پشاور ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو اس بس منصوبے میں تحقیقات کرنے کی ہدایت کی تھی۔
لیکن خیبر پختونخوا حکومت کی درخواست پر سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا۔ مولانا امان اللہ حقانی کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے حکم امتناعی اس بنیاد پر حاصل کیا تھا کہ اس منصوبے پر کام جاری ہے۔
اُن کے بقول اب جب منصوبہ مکمل ہو گیا ہے تو صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ ازخود سپریم کورٹ سے حکم امتناع خارج کرنے کے لیے رُجوع کرے۔ بصورتِ دیگر وہ اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے رُجوع کریں گے۔
پشاور بس منصوبے کا افتتاح سابق وزیر داخلہ اور موجود وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے اکتوبر 2017 میں کیا تھا اور ان کا دعویٰ تھا کہ یہ منصوبہ 49 ارب روپے کی لاگت سے چھ مہینوں میں مکمل ہو گا۔
لیکن چھ مہینوں کی بجائے یہ منصوبہ تقریباً 100 ارب کی لاگت سے اگست 2020 کے وسط میں مکمل ہوا۔ ایک مہینے کے دوران بسوں میں آگ لگنے کے چار واقعات کے علاوہ چھ حادثات بھی ہو چکے ہیں جب کہ کئی اسٹیشنز کی تعمیر ابھی جاری ہے۔