|
بھارت میں نئی لوک سبھا کے پہلے ہی اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں کے درمیان تندوتیز جملوں کا تبادلہ ہوا۔ راہل گاندھی کی تقریر کے جواب میں وزیرِ اعظم نریندر مودی نے خود جواب دیا۔
پارلیمانی روایات کے مطابق نئے ارکان کی حلف برداری کے بعد پیش کیے جانے والے صدر کے خطاب پر بحث ہوتی ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ارکان حصہ لیتے ہیں۔
گزشتہ 10 برس کے دوران لوک سبھا میں کوئی بھی قائد حزب اختلاف نہیں تھا۔ ضابطے کے مطابق جو پارٹی ایوان کی نشستوں کا 10 فی صد جیتنے میں کامیاب ہوتی ہے اس کا کوئی رکن حزبِ اختلاف کا قائد ہوتا ہے۔ گزشتہ دو انتخابات میں کوئی بھی پارٹی اتنی نشستیں جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی۔
لیکن اس بار کانگریس نے اتنی سیٹیں جیت لیں اور حزبِ اختلاف نے راہل گاندھی کو ایوان میں اپنا قائد منتخب کر لیا۔ انھوں نے قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے جو پہلی تقریر کی اس پر میڈیا میں بہت زیادہ گفتگو ہو رہی ہے اور ایوان کی کارروائی کے پیش نظر یہ کہا جا رہا ہے کہ ایسا محسوس ہو تا ہے جیسے 10 برس میں پہلی بار جمہویت واپس آئی ہے۔
راہل گاندھی کی تقریر بہت سخت تھی جس میں انہوں نے وزیرِ اعظم نریندر مودی، ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) اور اس کی نظریاتی سرپرست جماعت ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (آر ایس ایس) پر شدید تنقید کی۔
اس موقع پر انھوں نے ہندو مذہب کے ایک دیوتا شیو کی تصویر دکھاتے ہوئے بی جے پی پر تشدد، نفرت اور جھوٹ پھیلانے کا الزام لگایا۔ ان کے الزام پر وزیرِ اعظم مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ یکے بعد دیگرے کھڑے ہوئے اور انھوں نے اعتراض کیا۔
راہل گاندھی سے معافی مانگنے کا مطالبہ
جب راہل گاندھی نے بی جے پی پر تشدد اور نفرت پھیلانے کا الزام لگایا تو وزیرِ اعظم مودی دو بار کھڑے ہوئے اور کہا کہ قائد حزبِ اختلاف پورے ہندو سماج کو تشدد پسند کہہ رہے ہیں، یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔
وزیرِ داخلہ امت شاہ نے کہا کہ قائدِ حزب اختلاف نہیں جانتے کہ کروڑوں افراد خود کو ہندو کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ تشدد کو کسی بھی مذہب سے جوڑنا غلط ہے۔ انھوں نے راہل گاندھی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔
اس پر راہل نے برجستہ کہا کہ نہیں نہیں! وزیر اعظم مودی، بی جے پی اور آر ایس ایس تمام ہندو سماج کی نمائندگی نہیں کرتے۔ بی جے پی ہندو مذہب کی اجارہ دار بننے کی کوشش نہ کرے۔
اس موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی نے راہل گاندھی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت اور آئین نے انھیں سکھایا ہے کہ حزبِ اختلاف کے قائد کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
وزیرِ اعظم مودی نے کہا کہ ہندوؤں کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کیے جانے کی سازش کی گئی ہے۔ انہوں نے کانگریس پر ہندوؤں کا مذاق اڑانے کا الزام لگایا اور کہا کہ یہ اس کا فیشن بن چکا ہے۔
انھوں نے راہل گاندھی کو کند ذہن قرار دیا اور کہا کہ انھوں نے ہمدردی حاصل کرنے کے لیے ایوان میں ڈرامہ کیا۔ ان کے بقول بچوں والی ذہنیت کا شخص نہیں جانتا کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیسے پیش آنا ہے۔ اب پورا ملک ان سے کہہ رہا کہ تم سے نہیں ہو پائے گا۔
راہل گاندھی کی تقریر پر مرکزی وزرا راج ناتھ سنگھ، بھوپیندر یادوشیو راج سنگھ چوہان اور کرن رجیجو نے بھی اعتراض کیا۔
بعد ازاں مرکزی وزرا اشونی ویشنو اور کرن رجیجو اور بی جے پی ترجمان سدھانشو ترویدی نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کر کے کہا کہ راہل گاندھی نے پہلی بار قائدِ حزب اختلاف کا ذمہ دارانہ عہدہ سنبھالا ہے لیکن پہلے ہی روز انھوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔
کرن رجیجو نے کہا کہ اگر اگنی ویر اور دیگر ایشوز پر راہل نے غلط بیانی کی ہے تو انھیں ایوان کے ضابطوں کا سامنا کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ اسپیکر نے ایوان میں بیان دیا ہے کہ وہ اس بارے میں مناسب ہدایت دیں گے۔
'اگنی ویر' اسکیم پر تنقید
راہل گاندھی نے اپنی ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر میں بی جے پی پر آئین اور اپوزیشن رہنماؤں پر منظم حملے کا الزام لگایا۔ انھوں نے فوج میں چار سال کے لیے عارضی بھرتی کی اسکیم ’اگنی ویر‘ پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اگر کوئی اگنی ویر مرتا ہے تو اسے نہ تو شہادت کا درجہ ملتا ہے اور نہ ہی پینشن ملتی ہے۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اس الزام کی تردید کی۔
انھوں نے منی پور میں زائد از ایک سال سے جاری نسلی فساد پر بھی حکومت پر تنقید کی۔ انھوں نے اقلیتوں اور مسلمانوں پر ہونے والے تشدد کے لیے بھی بی جے پی اور حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
'وزیرِ اعظم مودی کو اب برابر کی ٹکر مل رہی ہے'
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بہت دنوں کے بعد پارلیمان میں ایسی تقریر سننے اور ایسا منظر دیکھنے کو ملا۔ 18 ویں پارلیمان مختلف ہے اور حکومت کے لیے من مانے انداز میں کام کرنا آسان نہیں ہو گا۔
ان کے مطابق جب راہل گاندھی نے اسپیکر پر تنقید کی اور ایوان میں ان کی مبینہ جانب داری پر اعتراض کیا تو وہ بے بس نظر آ رہے تھے۔ اس وقت انھوں نے راہل گاندھی کو تقریر روکنے کو نہیں کہا لیکن بعد ازاں ان کے تقریر کے کئی حصے ایوان کی کارروائی سے نکال دیے گئے۔
نویں سے 18 ویں پارلیمان کی کارروائی کو کور کرنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار رشید قدوائی کہتے ہیں کہ انھوں نے قبل ازیں ایوان میں ایسا منظر نہیں دیکھا کہ وزیرِ اعظم، وزیرِ داخلہ، وزیرِ دفاع اور دیگر وزرا قائدِ حزبِ اختلاف کی تقریر پر کھڑے ہو کر احتجاج کریں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ راہل گاندھی نے صدر کے خطاب کو سیاسی شکل دے دی اور بی جے پی پر اقلیتوں اور مسلمانوں کے خلاف تشدد کے حوالے سے ایسے الزامات لگائے کہ حکومت برداشت نہیں کر سکی۔
یاد رہے کہ راہل گاندھی کی تقریر پر صرف کابینہ وزرا اور بی جے پی رہنماؤں نے ہی ردعمل کا اظہار نہیں کیا بلکہ آر ایس ایس نے بھی کیا۔
آر ایس ایس کے رہنما سنیل امبیکار نے خبر رساں ادارے 'اے این آئی' سے گفتگو میں کہا کہ یہ بہت افسوسناک ہے کہ پارلیمان میں اہم منصب پر فائز رکن نے ہندوتوا کو تشدد سے جوڑا۔ ہندوتو بھائی چارے اور ہم آہنگی کی علامت ہے۔
رشید قدوائی کے خیال میں گزشتہ 10 برس کے دوران ملکی سیاست نریندر مودی کے ارد گرد گھومتی رہی اور وہ اپنی شرائط پر سیاست کرتے رہے۔ لیکن اب ان کو برابر کی ٹکر مل رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ موجودہ لوک سبھا میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کی تعداد میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ وزیر اعظم مودی اور دیگر وزرا اس حقیقت کو محسوس نہیں کر پا رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ آنے والا وقت حکومت کے لیے مشکل ہونے والا ہے۔ ایوان چلانے کی ذمے داری حکومت کی ہوتی ہے۔ اس بار اپوزیشن کی آواز دبانا آسان نہیں ہوگا۔
یاد رہے کہ 17 ویں لوک سبھا میں اپوزیشن ارکان اور خاص طور پر راہل گاندھی کی تقریر کے دوران ایوان کا مائیک بند کر دیا جاتا تھا۔ تقریر کے دوران ان کا چہرہ دکھانے کے بجائے اسپیکر کا چہرہ دکھایا جاتا تھا اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اپوزیشن کے 147 ارکان کو معطل کر دیا گیا تھا۔
ایک نشریاتی ادارے ’نیوز 24‘ پر ہونے والے مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار پربھو چاولہ کہتے ہیں کہ انھوں نے 10 پارلیمان کو کور کیا اور ایوان میں آٹھ وزرائے اعظم کو سنا لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وزیرِ اعظم قائدِ حزب اختلاف کی تقریر کے دوران ٹوکے۔
ان کے مطابق راہل نے مختلف ایشوز کو اٹھا کر حکومت کو مشتعل کر دیا اور پہلی بار دیکھا گیا کہ وزیر داخلہ ایوان کے ضابطوں کا حوالہ دیتے ہوئے اسپیکر سے تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘کے پولیٹیکل ایڈیٹر اور سینئر تجزیہ کار ونود شرما کے خیال میں یکم جولائی کا دن ’انڈیا‘ اتحاد کے نام رہا اور برسوں کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ ملک میں جمہوریت ابھی زندہ ہے۔ ان کے مطابق قائد حزب اختلاف نے متعدد ایشوز اٹھا کر حکومت کو پریشان کر دیا۔
سماجوادی پارٹی، ترنمول کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے بھی حکومت پر تنقید کی۔