جنوبی کوریا کی پارک گیون نے کہا کہ کشتی کے عملے کا ردعمل ’’نہ تو سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی اس کو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔‘‘
جنوبی کوریا کی صدر پارک گیون ہائی نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتہ ڈوبنے والی مسافر کشتی کے کپتان اور عملے کے اقدامات ’’قتل کے مترادف‘‘ تھے۔
’’سیول‘‘ نامی کشتی بدھ کو جنوبی کوریا کے ساحل سے دور ایک سیاحتی جزیرے کے قریب سمندر میں ڈوب گئی تھی، اس پر 476 افراد سوار تھے۔
پارک گیون نے کہا کہ کشتی کے عملے کا ردعمل ’’نہ تو سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی اس کو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔‘‘
جہاز کے کپتان اور ایک معاون عہدیدار اور عملے کے ایک رکن کو ہفتہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان پر الزام ہے کہ انھوں کشتی ڈوبتے وقت ذمہ دارانہ رویہ نہیں اپنایا اور مسافروں کے نکلنے کے لیے بروقت ہدایات کی بجائے اُنھیں اپنی سیٹوں پر ہی بیٹھے رہنے کے لیے کہا۔
استغاثہ نے پیر کو کہا کہ عملے کے مزید چار افراد کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے اور ان پر الزام ہے کہ وہ مسافروں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے۔
امدادی کاموں میں مصروف غوطہ غوروں نے اب تک ڈوبنے والی کشتی سے 60 سے زائد لاشوں کو نکال لیا ہے۔
اب بھی لگ بھگ 200 افراد لاپتا ہیں جن میں زیادہ تر تعداد ہائی اسکول کے طالب علموں کی ہے جو سیاحت کے لیے کشتی پر سوار تھے۔
غرقاب ہونے والی کشتی پر سوار 174 افراد کو زندہ بچا لیا گیا ہے۔
کشتی کے کنٹرول روم میں ہونے والی گفتگو کی تفصیلات بھی جاری کی گئی ہیں جن کے مطابق مسافروں کو کشتی چھوڑنے کے بارے میں احکامات دینے سے متعلق کپتان اور عملہ تذبذب کا شکار تھا۔
تفصیلات کے مطابق عملے کا ایک رکن بار بار یہ سوال کر رہا تھا کہ کہ اگر کشتی خالی کرنے کی ہدایت کی جائے تو کیا کافی تعداد میں چھوٹی کشتیاں موجود ہیں یا نہیں۔
کشتی کے زیر حراست کپتان پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ مسافروں کو سیٹوں پر بیٹھے رہنے کی ہدایت اس لیے کی گئی کیوں کہ خدشہ تھا کہ وہ تیز رفتار پانی میں بہہ سکتے ہیں۔
’’سیول‘‘ نامی کشتی بدھ کو جنوبی کوریا کے ساحل سے دور ایک سیاحتی جزیرے کے قریب سمندر میں ڈوب گئی تھی، اس پر 476 افراد سوار تھے۔
پارک گیون نے کہا کہ کشتی کے عملے کا ردعمل ’’نہ تو سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی اس کو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔‘‘
جہاز کے کپتان اور ایک معاون عہدیدار اور عملے کے ایک رکن کو ہفتہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان پر الزام ہے کہ انھوں کشتی ڈوبتے وقت ذمہ دارانہ رویہ نہیں اپنایا اور مسافروں کے نکلنے کے لیے بروقت ہدایات کی بجائے اُنھیں اپنی سیٹوں پر ہی بیٹھے رہنے کے لیے کہا۔
استغاثہ نے پیر کو کہا کہ عملے کے مزید چار افراد کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے اور ان پر الزام ہے کہ وہ مسافروں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے۔
امدادی کاموں میں مصروف غوطہ غوروں نے اب تک ڈوبنے والی کشتی سے 60 سے زائد لاشوں کو نکال لیا ہے۔
اب بھی لگ بھگ 200 افراد لاپتا ہیں جن میں زیادہ تر تعداد ہائی اسکول کے طالب علموں کی ہے جو سیاحت کے لیے کشتی پر سوار تھے۔
غرقاب ہونے والی کشتی پر سوار 174 افراد کو زندہ بچا لیا گیا ہے۔
کشتی کے کنٹرول روم میں ہونے والی گفتگو کی تفصیلات بھی جاری کی گئی ہیں جن کے مطابق مسافروں کو کشتی چھوڑنے کے بارے میں احکامات دینے سے متعلق کپتان اور عملہ تذبذب کا شکار تھا۔
تفصیلات کے مطابق عملے کا ایک رکن بار بار یہ سوال کر رہا تھا کہ کہ اگر کشتی خالی کرنے کی ہدایت کی جائے تو کیا کافی تعداد میں چھوٹی کشتیاں موجود ہیں یا نہیں۔
کشتی کے زیر حراست کپتان پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ مسافروں کو سیٹوں پر بیٹھے رہنے کی ہدایت اس لیے کی گئی کیوں کہ خدشہ تھا کہ وہ تیز رفتار پانی میں بہہ سکتے ہیں۔