امریکہ: جاسوسی کے خوف سے چینی طلبہ کی جانچ پڑتال سخت کرنے پر غور

بیجنگ میں چینی طلبہ امریکی سفارخانے میں ویزے کے حصول کے لیے درخواست جمع کرانے موجود ہیں۔ (فائل فوٹو)

امریکی محکمۂ خارجہ نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ ویزوں پر پابندیوں کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ویزا صرف اُن کو ملے جو اس کے اہل ہیں اور امریکی مفادات کو کسی بھی اعتبار سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔

ٹرمپ انتظامیہ چین سے حصولِ تعلیم کے لیے امریکہ آنے والے طلبہ و طالبات کی امریکی یونیورسٹیوں میں داخلے سے قبل اُن کے پسِ منظر کے متعلق تفصیلی جانچ پڑتال کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

امریکی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد جاسوسی اور ایسے شعبوں سے متعلق دانشورانہ ملکیت کے حقوق کی چوری کو روکنا ہے جو امریکہ کے لیے حساس نوعیت کے حامل ہوں۔

اس سے قبل جون میں امریکی محکمۂ خارجہ نے ہوابازی، روبوٹکس اور جدید ترین مصنوعات سازی کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم کے خواہش مند چینی طلبہ کے ویزے کی میعاد پانچ سال سے کم کر کے ایک سال کر دی تھی جس کے بعد اب چینی طلبہ کے پسِ منظر کی جانچ پڑتال شروع کرنے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔

ایک امریکی اہلکار اور کانگریس اور امریکی یونیورسٹیوں کے تین ذرائع نے نیوز ایجنسی 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ اس جانچ پڑتال میں چینی طلبہ کے فون کے ریکارڈ اور سوشل میڈیا پر اُن کے تمام اکاؤنٹس کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھا جائے گا کہ آیا یہ طلبہ کسی سرکاری تنظیم سے رابطے میں تو نہیں ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ قانون کا نفاذ کرنے والے امریکی ادارے یونیورسٹیوں کے تدریسی اسٹاف کو جاسوسی کے کسی اقدام یا انٹرنیٹ کے ذریعے اہم معلومات کی چوری کا پتہ لگانے کے حوالے سے اسی انداز میں تربیت دیں گے جیسے وہ سرکاری اہلکاروں کو تربیت دیتے ہیں۔

امریکی محکمۂ خارجہ نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ ویزوں پر پابندیوں کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ویزا صرف اُن کو ملے جو اس کے اہل ہیں اور امریکی مفادات کو کسی بھی اعتبار سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔

تاہم امریکہ میں چین کے سفیر چوئی تیان کائی کا کہنا ہے کہ امریکہ نے اس معاملے کو سیاسی وجوہات کی بنا پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ کسی چینی طالب علم پر جاسوسی کا الزام لگانا انتہائی غیر منصفانہ اقدام ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام امریکہ کی اُن کوششوں کا حصہ ہے جن کے تحت وہ چین کی طرف سے ٹیکنالوجی کے میدان میں تیزی سے ترقی کرنے کی خاطر مبینہ طور پر غیر واجب طریقوں کے استعمال کو روکنا چاہتا ہے۔

تاہم ہارورڈ، ییل اور پرنسٹن سمیت امریکہ کی مشہور یونیورسٹوں میں اس بارے میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ یہ تمام یونیورسٹیاں اپنے منافع کے لیے بیرونی ممالک سے طلبہ کو داخلے پر مائل کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق اوسطاً 360,000 چینی طلبہ ہر سال تعلیم کے لیے امریکہ آتے ہیں جن سے امریکی یونیورسٹیوں کو تقریباً 14 ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔

اگر نئے امریکی اقدام کے نتیجے میں چینی طلبہ امریکہ کے بجائے دوسرے یورپی ممالک کی طرف رُخ کرنے لگے تو اس سے امریکہ خطیر آمدنی سے محروم ہو سکتا ہے۔