رسائی کے لنکس

صدر ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی کے ممکنہ اثرات


امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ منگل کی شام کانگریس میں اپنا پہلا اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کیا جس میں اُنہوں نے کہا کہ ریاست مضبوط ہے اور امریکی معیشت تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے امیگریشن سے متعلق چار نقاط پر مشتمل اپنی حکمت عملی کا بھی اعلان کیا جس میں امریکہ میں قانونی دستاویزات کے بغیر 18 لاکھ امیگرینٹس کو قانونی حیثیت دینے، میکسیکو کے ساتھ سرحد پر دیوار تعمیر کرنے، ویزا لاٹری ختم کرنے اور چین امیگریشن کو بیوی/شوہر اور بچوں تک محدود کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس نئی امیگریشن پالیسی کے عمومی طور پر امیگریشن پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ہم نے اس بارے میں امریکہ کے مشہور تھنک ٹینک سینٹر فار امریکن پراگریس میں امیگریشن پالیسی کے ڈائریکٹر جنرل فلپ وولجن سے بات کی تو اُنہوں نے بتایا کہ اگر یہ امیگریشن پالیسی قانون کا درجہ حاصل کر لیتی ہے تو اس سے امریکہ میں امیگریشن انتہائی محدود ہو جائے گی اور امریکہ پر تین اہم حوالوں سے اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس سے امیگریشن بہت کم ہو جائے گی اور سفید فام لوگوں کے علاوہ باقی تمام لوگ اس سے شدید طور پر متاثر ہوں گے۔ اس پالیسی کی وجہ والدین کیلئے امریکہ میں اپنے بچوں کے پاس آنا ممکن نہیں رہے گا اور نہ ہی بہن بھائیوں کا یہاں آنا ممکن ہو سکے گا۔

فلپ وولجن کا خیال ہے کہ اس پالیسی کے نتیجے میں امیگریشن کے ذریعے امریکہ آنے والوں کی تعداد میں ایک تہائی سے نصف حد تک کمی واقع ہو گی۔ یوں ان پابندیوں کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں سیام فام، لاطینو اور ایشیائی امیگرنٹ شامل ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ ان پابندیوں کے نتیجے میں ٹرمپ انتظامیہ کو جنوب میں میکسیکو کے ساتھ سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کیلئے مطلوبہ 25 ارب ڈالر کے مالی وسائل دستیاب ہو جائیں گے جس سے دیوار تعمیر کرنے کے علاو ہ اس کی نگرانی کیلئے مزید بارڈر پیٹرول اہلکاروں کو بھرتی کیا جا سکے گا۔

فلپ وولجن کا کہنا ہے کہ حال ہی میں ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکورٹی یعنی DHS کے ڈپٹی انسپیکٹر جنرل ایلن ڈیوک نے کہا ہے کہ 25 ارب ڈالر کی اس مجوزہ فندنگ کا کچھ حصہ DHS خود بھی استعمال کرے گا جس سے بقول اُن کے مراد یہ ہے کہ یہ رقم امیگرنٹس کو ڈی پورٹ کرنے کیلئے استعمال ہو گی۔

تیسری بات یہ ہے کہ اس سے وہ لوگ بھی شدید طور پر متاثر ہوں گے جو کسی خطرے سے بچنے کیلئے امریکہ میں سیاسی پناہ حاصل کرتے ہیں کیونکہ اُن کیلئے خطرات سے بچنے کا یہ واحد راستہ ہے۔

فلپ وولجن کا کہنا ہے کہ امیگرینٹس کے امریکہ آنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ نسبتاً کم عمر کے ہنر مند اور تعلیم یافتہ افراد نے امریکہ آ کر یہاں ریٹائر ہونے والوں کی جگہ سنبھالی اور یوں اُنہوں نے امریکہ کی تیز رفتار ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ امریکہ کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اب زیادہ عمر کے افراد پر مشتمل ہے اور اُن کی دیکھ بھال کیلئے سوشل سیکورٹی اور طبی دیکھ بھال کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ لہذا اگر امیگریشن انتہائی محدود ہو جاتی ہے تو امریکہ میں مستقبل میں خالی ہونے والی ملازمتوں کیلئے کافی انسانی وسائل موجود نہیں ہوں گے۔

فلپ نے گوگل اور یاہو جیسی انٹرنیٹ کمپنیوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایسی بڑی کمپنیوں کے بانی امیگرنٹ تھے اور اگر امیگریشن پر پاندی لگ جاتی ہے تو سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا ایسے ذہین لوگ امریکہ آئیں گے یا پھر دوسرے ملکوں کا رُخ کریں گے۔ اس بارے میں شاید ہم نے سوچا نہیں ہے۔

فلپ کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی فی الحال محض ایک تجویز ہے اور کانگریس سے منظوری کے بعد ہی اسے قانونی حیثیت حاصل ہو سکے گی اور یہ منظوری حاصل کرنے میں شدید دشواری ہو گی کیونکہ ڈیموکریٹک سنیٹرز اور ایوان نمائیندگان کے ارکان اس کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔

تاہم آن لائن تحقیقی ادارے WalletHub Communications کی تجزیہ کار جل گانزیلس نے ہمیں بتایا کہ نئی امیگریشن پالیسی سے امریکہ کی تمام ریاستوں کو فائدہ پہنچے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے ڈریمرز کہلانے والے اُن 18 لاکھ امیگرنٹس کو سکونتی دستاویزات فراہم کرنے کی بات کی ہے جنہیں سالہا سال امریکہ میں رہنے کے باوجود سکونت کیلئے قانونی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر ہم امیگرنٹس پر مشتمل انسانی وسائل پر نظر ڈالیں تو نیویارک اور کیلی فورنیا جیسی ریاستوں میں کام کرنے والے ایک تہائی افراد ایسے ہیں جن کی پیدائش کسی دوسرے ملک میں ہوئی تھی۔ لہذا مزید 18 لاکھ امیگرنٹس کو قانونی حیثیت دینے سے انسانی وسائل میں اضافہ ہو گا اور یہ ثابت ہو گا کہ امریکی معیشت امیگرنٹس پر کس قدر انحصار کرتی ہے۔

ویزا لاٹری کی منسوخی کے حوالے سے جل کہتی ہیں کہ اس سے امیگریشن پر کچھ اثر تو ضرور پڑے گا لیکن یہ اثر اس حوالے سے ہو گا کہ امیگرنٹس کس انداز اور حیثیت میں امریکہ آتے ہیں۔ اُنہوں نے واشنگٹن ڈی سی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہاں بہت سے غیر ملکی طلبا F-1 ویزا پر آئے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے H1-B ویزا لیا اور اب مقامی معیشت حصہ بن رہے ہیں۔ یوں میرٹ کی بنیاد پر ہم امیگریشن میں اضافہ ہوتا دیکھیں گے۔

XS
SM
MD
LG