|
ویب ڈیسک—امریکہ کے وفاقی تفتیشی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے کہا ہے کہ اسے سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل سے متعلق 2400 نئی دستاویزات ملی ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ جان ایف کینیڈی کے قتل سے متعلق دستاویزات جاری کرنے کا کا حکم نامہ جاری کیا تھا اور ایف بی آئی اس پر عمل درآمد کے لیے کام کر رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق ایف بی آئی نے کہا ہے کہ قتل سے متعلق موجود ریکارڈ ’نیشنل آرکائیوز اینڈ ریکارڈ ایڈمنسٹریشن‘ منتقل کیا جارہا ہے۔
نیشنل آرکائیوز اینڈ ریکارڈ ایڈمنسٹریشن امریکہ کی حکومت کا وہ ادارہ ہے جو سرکاری اور تاریخی دستاویزات کی حفاظت کرتا ہے۔
ایف بی آئی سےنیشنل آرکائیوز اینڈ ریکارڈ ایڈمنسٹریشن منتقل ہونے کے بعد ان دستاویزات کو ڈی کلاسیفائی کیا جائے گا۔
دستاویزت یا ریکارڈ ڈی کلاسیفائیڈ ہونے کے بعد عوام کی اس تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے اور کوئی بھی شہری ان دستاویزات میں موجود معلومات دیکھ سکتا ہے۔
جان ایف کینیڈی جنوری 1961 میں اقتدار سنبھالنے والے امریکہ کے 35 ویں صدر تھے جنہیں 22 نومبر 1963ء کو ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس کے دورے کے موقعے پر ایک 24 سالہ سابق امریکی فوجی ہاروی آسولڈ نے قتل کر دیا تھا۔
پولیس نے چند گھنٹوں بعد ہی ملزم کو گرفتار کر لیا تھا۔ صدر کینیڈی کا قتل امریکہ کی تاریخ کے متنازع اور پراسرار ترین واقعات میں سے ایک ہے۔
SEE ALSO: امریکی صدور پر کب کب حملے ہوئے؟
صدرکینیڈی کے نائب صدر لنڈن بی جانسن نے ان کی جگہ صدارت کا منصب سنبھالا تھا۔ وہ امریکی تاریخ کے واحد صدر ہیں جن کی حلف برداری جہاز میں ہوئی تھی۔
امریکہ کی وفاقی حکومت نے 1990 کی دہائی کے ابتدا میں صدر کینیڈی کے قتل سے متعلق موجود تمام ریکارڈ اور دستاویزات کو نیشنل آرکائیوز اینڈ ریکارڈ ایڈمنسٹریشن میں ایک جگہ جمع کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس کے بعد کینیڈی کے قتل سے متعلق دستیاب ریکارڈ کے بڑے حصے تک عام رسائی کی اجازت دے دی گئی تھی۔
یہ ریکارڈ میں لگ بھگ 50 لاکھ کاغذات پر مشتمل ہے تاہم محققین کا خیال ہے کہ صدر کینیڈی کے قتل سے متعلق لگ بھگ تین ہزار فائلیں یا دستاویزات کے مختلف حصے ایسے ہیں جنہیں اب تک عام نہیں کیا گیا ہے۔
ایف بی آئی نے یہ نہیں بتایا کہ حال ہی میں صدر کینیڈی کے قتل سے متعلق ملنے والی دستاویزات میں کیا معلومات موجود ہیں۔
صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ ایک صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس میں ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی اور اٹارنی جنرل کو صدر کینیڈی کے قتل سے متعلق خفیہ ریکارڈ عوام کے سامنے لانے کا خاکہ تیار کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جینس کے دفتر کے ترجمان کے مطابق صدر کے احکامات کے تحت کلاسیفائیڈ دستاویزات کے اجرا کا ایک پلان پیش کیا جا چکا ہے۔
SEE ALSO: امریکی انتخابات: صدور جنہوں نے دوسری مدت کے لیے انتخاب میں حصہ نہیں لیاالبتہ بیان میں اس پلان کے بارے میں مزید تفصیلات موجود نہیں ہیں کہ خفیہ معلومات کے اجرا کی ٹائم لائن کیا ہوگی یا یہ کب تک عوام کے لیے دستیاب ہوں گی۔
صدر کینیڈی کے قتل کے فوراً بعد صدر لنڈن بی جانسن نے سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس ارل وارن کو اس واقعے کی تحقیقات کی ذمے داری سونپی تھی۔
جسٹس وارن کمیشن نے 10 ماہ کی تحقیقات کے بعد 888 صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا تھا کہ آسولڈ نے صدر کینیڈی کو اکیلے ہی قتل کیا اور یہ اقدام کرنے میں اسے کسی کی مدد حاصل نہیں تھی۔
SEE ALSO: صدر کینیڈی کا قتل اور ’سیکریٹ سروس‘ میں آنے والی تبدیلیاںحملہ آور آسولڈ کو گرفتاری کے دو دن بعد ان کی جیل منتقلی دوران ایک نائٹ کلب کے مالک جیک روبی نے پولیس کی حراست میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
گزشتہ برسوں میں عام ہونے والی دستاویزات میں یہ سامنے آ چکا ہے کہ حملہ آور لی ہاروے آسولڈ نے اس واقعے سے قبل کچھ ممالک کا دورہ کیا تھا۔
کینیڈی کے قاتل کا حملے سے دو ماہ قبل میکسیکو کا دورہ کرنا محققین کی توجہ کا خاص مرکز رہا ہے۔ اس دورے میں حملہ آور مبینہ طور پر سوویت یونین اور کیوبا کے سفارت خانوں میں بھی گئے تھے۔
اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔