حکومت کی طرف سے فاٹا اصلاحات کا بِل جمعرات کو بھی قومی اسمبلی میں پیش نہیں کیا جا سکا جس پر حزبِ مخالف کی جماعتوں نے ایک مرتبہ پھر ایوان سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔
توقع کی جا رہی تھی کہ فاٹا اصلاحات سے متعلق مسودۂ قانون آج قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا لیکن جمعرات کی صبح جب ایوان کی کارروائی کا آغاز ہوا تو یہ بِل ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔
حزبِ مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر نوید قمر نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ حکومت نے اس معاملے کو ایجنڈے میں شامل کیا تھا لیکن پراسرار طریقے سے فاٹا اصلاحات کے بل کو ایک بار پھر ایجنڈے سے نکال دیا گیا۔
انہوں نے کہا، ’’ہم اب بھی انتظار کر رہے ہیں، فاٹا کے عوام انتظار کر رہے ہیں، ہم فاٹا کے لوگوں کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔‘‘
نوید قمر نے ایوان میں موجود حزبِ مخالف کی جماعتوں کو واک آؤٹ کرنے کا کہا جس کے بعد کورم ٹوٹ گیا اور قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔
اجلاس ملتوی کیے جانے سے قبل وفاقی وزیر برائے سرحدی اُمور عبدالقادر بلوچ نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت نے فاٹا میں اصلاحات کے لیے کوششوں کا آغاز کیا تھا اور اس کام کو مکمل کیا جائے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ حکومت فاٹا اصلاحات کے بِل کو ایوان میں پیش کرنا چاہتی ہے لیکن اس پر اتفاقِ رائے کے لیے کچھ مزید مشاورت کی ضرورت ہے۔
’’ہم مزید تاخیر نہیں کریں گے۔ ذمہ داری سے کہنا چاہتا ہوں کہ فاٹا اصلاحات ہوں گی اور ہر صورت کریں گے۔۔۔ یہ ہماری پارٹی کرے گی۔ اس کا کریڈٹ کسی اور کو نہیں دیں گے۔‘‘
فاٹا میں اصلاحات، خاص طور پر قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم پر کرنے پر کچھ اختلافات ہیں۔ بیشتر سیاسی جماعتیں اس حق میں ہیں کہ فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا جائے۔
تاہم حکومت کی دو اتحادی جماعتیں - جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا مؤقف ہے کہ فاٹا کے انضمام کے فیصلے سے قبل ریفرنڈم کرایا جانا چاہیے۔
ایک روز قبل فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے مخالف قبائلی عمائدین کے جرگے نے بھی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی تھی لیکن اس ملاقات میں بھی فاٹا اصلاحات پر عمل درآمد پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا۔
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے قبائلی عمائدین اور فاٹا کے نوجوانوں کے ایک جرگے سے حال ہی میں الگ الگ ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فوج فاٹا میں اصلاحات کی حامی ہے۔
سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم فاٹا اصلاحات کمیٹی کی سفارشات کی وفاقی کابینہ پہلے ہی منظوری دے چکی ہے لیکن اس بارے میں قانون سازی ہونا باقی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی سے متاثرہ قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے اور وہاں کے عوام کو ملک کے دیگر حصوں میں بسنے والوں کی طرح بنیادی حقوق فراہم کرنا چاہتی ہے۔
فاٹا اصلاحات میں تاخیر کے خلاف نہ صرف قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے قانون ساز بلکہ کئی دیگر جماعتیں بھی احتجاج کر چکی ہیں جب کہ حزبِ مخالف کی ایک بڑی جماعت تحریک انصاف سمیت کئی جماعتیں متنبہ کر چکی ہیں کہ وہ مزید تاخیر کی صورت میں احتجاج کریں گی۔