فیس بک نے انکشاف کیا ہے کہ چین میں ہیکرز جعلی ویب سائٹس اور اکاؤنٹس استعمال کر کے ایغور مسلمانوں کے کمپیوٹر اور سمارٹ فونز تک رسائی حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
فیس بک کے مطابق اس بڑے پیمانے پر ہونے والے خفیہ آپریشن کے ذریعے چین کے سنکیانگ صوبے میں بسنے والی ایغور کمیونٹی، اس کے سرگرم کارکنوں اور صحافیوں سمیت ترکی، قازقستان، امریکہ، شام، آسٹریلیا اور کینیڈا سمیت دیگر ملکوں میں ایغور کمیونٹی یا ان سے ہمدردی رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا گیا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ہیکرز نے ان افراد کے کمپیوٹرز اور سمارٹ فونز تک رسائی کے لیے صحافیوں اور ایکٹوسٹس کے جعلی فیس بک اکاؤنٹس بنائے۔ اس سلسلے میں ایسی جعلی ویب سائٹس اور ایپس بھی بنائی گئیں جن سے ایغور مسلمانوں کی توجہ حاصل کرنا مقصود تھا۔ کچھ کیسز میں ان ہیکرز نے ان ایغور مسلمانوں میں مشہور ویب سائٹس کے مشابہ ویب سائٹس بھی بنائیں۔
ان اکاؤنٹس میں ایسے مشتبہ لنک دئے گئے تھے جنہیں ہدف پر موجود افراد اگر کھولنے کی غلطی کر لیں تو ان کے سمارٹ فون اور کمپیوٹر ایسے سافٹ وئیرز سے متاثر ہو جاتے ہیں جن کی مدد سے ان کے ڈیوائسز کی جاسوسی کی جا سکتی ہے۔
سائبر سیکیورٹی کی فرم فائر آئی کے مطابق اس سافٹ وئیر کی مدد سے ان افراد کا محل و وقوع اور دیگر تفصیلات کا بھی پتہ چلایا جا سکتا ہے۔
فیس بک کے مطابق اس آپریشن میں پانچ سو سے زائد افراد کو 2019 اور 2020 کے دوران نشانہ بنایا گیا۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے معمول کے سیکیورٹی کے کام کے دوران اس نیٹ ورک کا پتہ لگایا اور ان اکاؤنٹس کو بند کر دیا گیا ہے اور جن افراد کے ڈیوائسز کو نشانہ بنایا گیا تھا انہیں مطلع کر دیا گیا ہے۔
فیس بک کے مطابق زیادہ تر ایسی کارروائیاں فیس بک سے باہر، دیگر پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے کی گئیں۔
فیس بک کی سیکیورٹی پالیسی کے سربراہ نیتھانی ایل گلائیخر کے مطابق ان افراد نے جعلی پروفائلز بنائے اور کمیونٹی میں ان سے متعلق اعتبار پیدا کیا اور اسے استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ان لنکس کو کھولنے کی ترغیب دی۔ جس کے بعد ان کے ڈیوائس محفوظ نہ رہے۔
فیس بک کی تحقیقات کے مطابق ان ہیکرز کا تعلق چین میں ٹیکنالوجی کی دو کمپنیوں سے ہے۔ فیس بک کو چین کی حکومت کا ان کارروائیوں کے ساتھ براہ راست تعلق نہیں ملا۔
چین کی حکومت سنکیانگ میں بسنے والے ایغور مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سخت طرز عمل کی بنیاد پر اس وقت ہدفِ تنقیدبنی ہوئی ہے۔ فیس بک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ہمیں یقین ہے کہ یہ آپریشن چین کی حکومت کی مدد سے کیا گیا۔‘‘
امریکی حکام اور دیگر انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق چین نے دس لاکھ ایغور افراد کو اپنے نام نہاد اصلاحی کیمپوں کے ایک بڑے نیٹ ورک میں قید رکھا ہوا ہے جن میں سے زیادہ تر ایغور مسلمان اور دوسرے مسلمان نسلی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان افراد پر تشدد کیا جاتا ہے، انہیں بانجھ بنایا جاتا ہے، انہیں سیاسی اصول ذہن نشین کروائے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ انہیں جبری مشقت سے بھی گزارا جاتا ہے۔ یہ سب چین کی جانب سے ان افراد کو چینی ثقافت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ مقامی آبادی چین میں بسنے والی ہان آبادی سے نسلی طور پر مختلف ہے۔