’’دھماکہ ہوتے ہی ہر طرف اندھیرا چھا گیا اور جب دھواں اور چھٹنا شروع ہوا تو دیکھا کہ مسجد کی چھت گر چکی تھی‘‘۔ یہ کہنا ہے پشاور پولیس کے اہل کار شاہد علی کا جو دھماکے کے وقت پولیس لائنز مسجد میں موجود تھے۔
پشاور میں ہونےو الے دھماکے کے بعد ابتدائی طور پر حکام اس دھماکے نوعیت کے بارے میں تفصیلات بتانے سے گریز کررہے تھے لیکن جائے وقوعہ پر موجود عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا۔ وہاں موجود کئی عینی شاہدین سے بات ہونے پر معلوم ہوا کہ حملہ آور جسم سے بارودی مواد باندھے مسجد کے اندرونی حال میں نمازیوں کی صف میں شامل ہوگیا تھا۔
پشاور پولیس کے اہل کار شاہد علی نے وہاں موجود ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت میں کہا کہ جب وہ وضو مکمل کرنے والے تھے تو اسی دوران خطیب نے با جماعت نماز کے لیے ’اللہ اکبر‘ کہہ کر نیت باندھ لی تھی ۔ وہ پہلی رکعت میں کچھ دیر سے مسجد کے بیرونی برآمدے کی دوسری صف میں پہنچ گئے اور جب نماز شروع کی تو انہیں ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ سنائی دیا جس کے فوری بعد زور دار دھماکہ ہوگیااور دھماکے کے بعد مسجد میں مکمل طور پر اندھیرا چھا گیا ۔
SEE ALSO: پشاور: پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے میں 61 افراد ہلاک،157 زخمیشاہد علی کے بقول، نماز کے دوران نعرہ لگانے والا ہی خود کش حملہ آور تھا ۔ چند منٹ بعد جب اندھیرا اور دھواں چھٹنا شروع ہوا تو انہوں نے دیکھا مسجد کی اندرونی ہال کی چھت مکمل طور پر زمین بوس ہوچکی تھی اور تمام نمازی ملبے تلے دب چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی برآمدے میں بھی درجنوں افراد موجود تھے اور ان میں سے بیش تر زخمی حالت میں کراہ رہے تھے ۔
دھماکے کے فورا بعد پولیس لائن میں موجود دیگر اہل کار اور ملازمین فوری طور پر پہنچ کر امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے ۔
پولیس لائنز میں ڈیوٹی پر موجود ایک اور عینی شاہد نے بتایا کہ وہ مسجد کے اندر نماز کی ادائیگی کے لیے داخل ہورہے تھے کہ دھماکہ ہوگیا۔ان کا کہنا تھا کہ ابتداء میں تو انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوا لیکن تھوڑی دیر بعد انہیں اندازہ ہوا کہ دھماکہ ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دھماکے کے نتیجے میں مسجد کا منبر والا حصہ مکمل طور پر گر پڑا جس کے ملبے تلے 100 سے زائد افراد دب گئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جائے وقوعہ پر پہنچنے والے سی سی پی او پشاور اعجاز خان نےبھی اس بات کی تصدیق کی کہ دھماکے باعث گرنے والی مسجد کی چھت کے نیچے کئی اہل کار دبے ہوئے ہیں۔ ریسکیو حکام ملبے تلے دبے ہوئے زخمیوں کو نکالنے کی کوشش کررہے ہیں۔
پولیس لائنز میں موجود اہل کاروں کے علاوہ یہاں اپنے عزیز و اقارب کے حال احوال معلوم کرنے والوں کی بڑی تعداد بھی جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔ اس دوران جائے وقوعہ پر پہنچنے والے بہت سے افراد اندر داخل ہونے کی کوشش میں پولیس اور دیگر سیکیورٹی اہل کاروں کے ساتھ دست و گریبان بھی ہوگئے۔
پیر کے دن ہفتہ وار چھٹی کے بعد پہلا دن ہونے کی وجہ سے پولیس لائنز میں معمول سے زیادہ آمد و رفت ہوتی ہے۔خود کش دھماکے کے بعد پولیس لائنز کے اندر موجود مرد اور خواتین پولیس اہل کاروں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔
دھماکے کے فوراً بعد پولیس لائنز اور سول سیکریٹریٹ کے تمام داخلی راستے بند کر دیے گئے ہیں جبکہ شہر کے تین بڑے اسپتالوں میں ہنگامی حالات نافذ کردیے گئے ہیں۔ جائے وقوعہ کا دورہ کرنے والے حکام اور اسپتال انتظامیہ نے زخمیوں کے لیے خون کے عطیات جمع کرنے کی اپیل کی ہے۔