رسائی کے لنکس

ٹرک کے سائز کے شہابیہ کا زمین کے قریب سے گزر


ناسا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے شہابیہ بی یو 2023 جب زمین کے قریب سے گزرے کا تو زمین کی کشش سے اس کا مدار تبدیل ہو جائے گا اور وہ سورج کے گرد اپنا چکر 359 دنوں کی بجائے 425 دنوں میں مکمل کیا کرے گا۔
ناسا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے شہابیہ بی یو 2023 جب زمین کے قریب سے گزرے کا تو زمین کی کشش سے اس کا مدار تبدیل ہو جائے گا اور وہ سورج کے گرد اپنا چکر 359 دنوں کی بجائے 425 دنوں میں مکمل کیا کرے گا۔

یوں تو آپ رات کے وقت آسمان پرستاروں کو ٹوٹ کر گرتا ہوا دیکھتے ہیں، جو اپنے پیچھے ایک لمبی روشن لکیر چھوڑتے ہوئے آناـً فاناً نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔انہیں شہابیے کہتے ہیں اور یہ ایک معمول کا عمل ہے، لیکن آج جمعرات کی رات کچھ خلاف معمول ہونے جا رہا ہے جس پر فلکیات کے ماہرین کو قدرے تشویش ہے۔

انہیں فکر یہ ہے کہ اس بار ایک قدرے بڑا شہابیہ زمین کے انتہائی قریب سے گزر ے گا، یعنی محض 2200 میل کے فاصلے سے۔ تاہم انہیں یقین ہے کہ وہ زمین سے نہیں ٹکرائے گا۔

شہابیے خلا میں اڑتی ہوئی چٹانوں کے چھوٹے بڑے ٹکڑے ہیں۔ جب وہ زمین یا کسی دوسرے سیارے کے قریب سے گزرتے ہیں تو ان کی مقناطیسی قوت شہابیے کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ چونکہ شہابیے کی رفتار ہزاروں میل فی گھنٹہ ہوتی ہے اس لیے سیارے کی سطح سے ٹکرانے سے بڑے پیمانے پر نقصان ہو سکتا ہے۔ نقصان کا انحصار شہابیے کے سائز پر ہوتا ہے۔بڑے سائز کا شہابیہ بڑا نقصان کرتا ہے۔

امریکی خلائی ادارے ناسا نے ڈیمورفاس نامی ایک بڑے شہابیے کا رخ موڑنے کے لیے اس سے ایک راکٹ ٹکرانے کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ ناسا کی جانب سے فراہم کی جانے والے شہابیے کی تصویر جس میں راکٹ اس کی جانب بڑھ رہا ہے۔ 26 ستمبر 2022
امریکی خلائی ادارے ناسا نے ڈیمورفاس نامی ایک بڑے شہابیے کا رخ موڑنے کے لیے اس سے ایک راکٹ ٹکرانے کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ ناسا کی جانب سے فراہم کی جانے والے شہابیے کی تصویر جس میں راکٹ اس کی جانب بڑھ رہا ہے۔ 26 ستمبر 2022

ہم اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ہماری زمین کو ہوا کی ایک موٹی تہہ نے ڈھانپ رکھا ہے، یہ تہہ نہ صرف جانداروں کو سانس لینے کے لیے آگسیجن فراہم کرتی ہے بلکہ ہمیں شہابیوں کے خطرات سے بھی بچاتی ہے۔

جب بھی کوئی شہابیہ زمین کے انتہائی قریب آتا ہے تو زمین کی مقناطیسی طاقت جسے کشش ثقل کہتے ہیں، اسے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ جس سے اس کی رفتار مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ شہابیہ جیسے ہی زمین کے کرہ فضائی میں داخل ہوتا ہے تو ہوا کی رگڑ سے وہ گرم ہونے لگتا ہے اور ایک مرحلے پر وہ اتنا گرم ہو جاتا ہے کہ اس میں آگ لگ جاتی ہے اور وہ آن واحد میں جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔

جاپان کے خلائی سائنس کے ادارے کی جانب سے شہابیے ریوگو کی خلائی گاڑی ون بی کی انتہائی قریب سے کھینچی گئی تصویر۔ 23 ستمبر 2018
جاپان کے خلائی سائنس کے ادارے کی جانب سے شہابیے ریوگو کی خلائی گاڑی ون بی کی انتہائی قریب سے کھینچی گئی تصویر۔ 23 ستمبر 2018

رات کے وقت جب آپ آسمان پر کسی ستارے کو ٹوٹتا ہوا دیکھتے ہیں تو اس وقت زمین کی جانب تیری سے بڑھتا ہوا شہابیہ شعلوں کی لپیٹ میں ہوتا ہے اور وہ راکھ میں تبدیل ہو رہا ہوتا ہے۔

شہابیے کی راکھ آہستہ آہستہ زمین پر گرتی ہے۔ اور آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی کہ یہ آسمانی راکھ زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتی ہے۔

اگر شہابیے کا سائز بہت بڑا ہو تو وہ ہوا کی تقریباً ایک سو میل موٹی تہہ سے گزرتے ہوئے مکمل طور پر تباہ ہونے سے بچ جاتا ہے اور زمین سے ٹکڑا سکتا ہے۔ جس سے اس کے سائز کے مطابق بڑے پیمانے پر تباہی آ سکتی ہے۔ کروڑوں سال پہلے ایک ایسا واقعہ ہی واقعہ پیش آنے سے بڑے پیمانے پر تباہی کے ساتھ آن واحد میں سب کچھ جل کر بخارات میں تبدیل ہو گیا تھا۔

مریخ کی سطح پر شہابیے کے ٹکڑے گرنے سے پڑنے والے نشانات۔ ناسا کی مریخ گاڑی اس مقام سے تقریباً 180 میل دور تھی۔ تاہم اس کے آلات کے دھماکوں کی آوازاور زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کر لیے۔
مریخ کی سطح پر شہابیے کے ٹکڑے گرنے سے پڑنے والے نشانات۔ ناسا کی مریخ گاڑی اس مقام سے تقریباً 180 میل دور تھی۔ تاہم اس کے آلات کے دھماکوں کی آوازاور زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کر لیے۔

سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ زمین سے ٹکرانے والے اس سب سے بڑے شہابیے کا سائز تقریباً 160 فٹ تھا۔ وہ خام لوہے کا چٹانی ٹکرا تھا جس کا وزن لگ بھگ تین لاکھ 30 ہزار ٹن تھا۔ وہ زمین سے 2700 میل فی گھنٹہ کی رفتار سےٹکرایا تھا جس سے ہیروشما پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے ڈیڑھ سو گنا زیادہ تباہی ہوئی تھی۔ اس کے ٹکرانے سے پیدا ہونے والے گڑھے کے نشانات امریکہ کے صحرائی علاقے ایری زونا میں آج بھی موجود ہیں۔

ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق زمین کے وجود میں آنے کے بعد سے تقریباً 60 بڑے شہابیے زمین سے ٹکرا کر تباہی پھیلا چکے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لگ بھگ ہر دس کروڑ سال کے بعد کسی بڑے شہابیے کا زمین سے ٹکرانے کا واقعہ رونما ہوتا ہے۔ کروڑوں سال پہلے ایک ایسے ہی حادثے نے دنیا سے ڈینوساروں کی نسل کا ہی خاتمہ کر دیا تھا۔

ناسا کے سائنس دانوں نے کہا ہے کہ جمعرات کو زمین کے انتہائی قریب سے گزرنے والے شہابیے کے گرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

امریکہ میں دیکھے گئے شہابیے
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:14 0:00

ناسا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جب یہ شہابیہ زمین کے انتہائی قریب یعنی 2200 میل کے فاصلے پر ہو گا تو اس وقت وہ براعظم جنوبی امریکہ کے جنوبی حصے پر سے گزر رہا ہو گا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس وقت وہاں شام کے 7 بج کر 27 منٹ ہو رہے ہوں گے۔

زمین کے انتہائی قریب سے گزرنے والے اس شہبابیے کو بی یو 2023 کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی چوڑائی تقریباً 11 فٹ اور لمبائی 28 فٹ کے لگ بھگ ہے۔

ناسا کے ماہرین فلکیات نے بتایا ہے کہ زمین کی کشش ثقل کی وجہ سے شہابیے کا راستہ تبدیل ہو جائے گا۔ اس وقت وہ سورج کے گرد اپنا چکر 359 دنوں میں مکمل کرتا ہے، لیکن مدار تبدیل ہونے سے آئندہ وہ بیضوی انداز میں اپنا یہ چکر 425 دنوں میں پورا کرے گا۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG