منی پور میں میتی اور کوکی قبائل کے درمیان تصادم اور نسلی فسادات کا آغاز رواں برس مئی میں ہوا تھا جس میں متعدد افراد کے قتل اور املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔
تاہم جمعرات کو دو خواتین کو برہنہ گشت گرانے کی ویڈیو نے اس تنازع سے متعلق بھارت اور عالمی سطح پر تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔
منی پور میں تشدد کی حالیہ لہر کو سمجھنے کے لیے میتی اور کوکی کمیونٹیز کے درمیان تنازع کے اسباب اور خطے کا تاریخی پس منظر جاننا ضروری ہے۔
سلطنت سے ریاست تک
پہاڑی سلسلوں میں گھری بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور پر 1891 میں برطانوی قبضے سے قبل ایک آزاد سلطنت تھی۔
اس ریاست میں تقریباً 39 نسلی گروہ آباد ہیں جو ہندومت، مسیحیت اور اسلام سمیت مختلف مذاہب کے پیروکار ہیں اور ان میں مقامی مذہبی روایات کے پیروکار بھی شامل ہیں۔
ریاست کی اکثریتی کمیونٹی میتی میں لگ بھگ 83 فی صد افراد ہند و ہیں جب کہ باقی مسلمان، مسیحی اور مقامی قبائلی مذاہب کے ماننے والے افراد ہیں۔
دوسری جانب گزشتہ نوے برس کے دوران کوکی قبائل کی اکثریت مسیحیت اختیار کر چکی ہے۔
منی پور کا بھارت میں انضمام 1949 میں ہوا تھا جس پر اس وقت بھی کئی تنازعات کھڑے ہوئے اور 1956 میں یہاں علیحدگی کی تحریک شروع ہو گئی۔
اس تحریک کا مقصد میتی کمیونٹی کے لیے علیحدہ ریاست کا قیام تھا جو شمال مشرقی بھارت کا سب سے بڑا نسلی گروہ ہے۔
منی پور میں میتی کمیونٹی کے ساتھ ناگا قبائل بھی بستے تھے جب کہ انگریزوں نے ریاست کے پہاڑی علاقوں میں کوکی قبائل کو بسایا تھا۔ مؤرخین کے مطابق کوکی قبائل کی منی پور میں آباد کاری بنیادی طور پر یہاں آبادی کا توازن پیدا کرنے لیے کی گئی تھی۔
SEE ALSO: منی پور میں دو خواتین کو سڑک پر برہنہ کرنے کا واقعہ، بھارتی حکومت اور سپریم کورٹ برہمعلیحدگی کی تحریکیں
سن 1956 میں شروع ہونے والی تحریک نے منی پور میں مزاحمت اور علیحدگی پسندی کی بنیاد رکھی اور شروع ہی سے منی پور اور نئی دہلی میں قائم مرکزی حکومت کے درمیان کئی تنازعات پر تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔
بھارت نے منی پور میں جاری مزاحمت کے مقابلے کے لیے 1958 میں یہاں منتازع قانون ’آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ‘ نافذ کر دیا تھا۔
اس قانون کے نفاذ سے بھارتی فورسز کو امن قائم کرنے کے نام پر وسیع اختیارات حاصل ہو گئے۔
بھارتی فورسز کو یہ اختیارات صرف کشمیر اور بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں دیے گئے تھے۔
منی پور میں بھارتی فورسز کو حاصل خصوصی اختیارات پر انسانی حقوق کے گروپس تنقید کرتے رہے ہیں۔
ان قوانین پر عمل درآمد کی وجہ سے منی پور اور مرکزی حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی خلیج میں بڑھتی چلی گئی۔
منی پور میں جاری علیحدگی پسند تحریک کی قیادت 1966 میں کمیونسٹوں کے ہاتھ میں چلی گئی اور آزادی کے لیے مقامی افراد پر مشتمل پیپلز لبریشن آرمی منظم ہو گئی۔
یہ وہ دور تھا جب مغربی بنگال اور بھارت کی دیگر شمال مشرقی ریاستوں ناگالینڈ اور میزورم میں ماؤ نواز قوم پرستوں کی مزاحمتی تحریکوں کا آغاز ہو گیا تھا جسے نکسلائیٹ، ماؤسٹ مزاحمت بھی کہا جاتا ہے۔
بھارت میں 1981 میں پیپلز لبریشن آرمی کے خلاف کارروائیوں کے بعد کئی مزید گروپس بھی منظم ہو گئے۔
نئی دہلی کا دعویٰ رہا ہے کہ ان مختلف گروپس کو غیر ملکی امداد حاصل رہی اور ان سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کو خطے میں اس کے حریف ممالک کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔
منی پور میں آج مختلف مذہبی و نسلی گروہوں کے درمیان تنازعات پائے جاتے ہیں اور ان سے تعلق رکھنے والے مختلف مسلح گروہ بھی کام کر رہے ہیں۔
ریاست کی امپھال وادی میں میتی نسلی گروہ اکثریت میں ہیں جب کہ پہاڑی اضلاع میں کوکی اور ناگا قبائل اور نسلی گروہوں کی آبادی ہے۔
نوے کی دہائی میں کوکی اور ناگا کمیونٹی کے درمیان نسلی فسادات شروع ہوئے جس کے بعد کوکی مسلح گروپس بننا شروع ہوئے جن میں سے کئی اب علیحدہ ریاست یا علاقائی کونسل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: منی پور میں نسلی تشدد روکنے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی پر دباؤامریکی تھنک ٹینک ’یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس‘ کے مطابق منی پور میں لگ بھگ 60 مسلح قبائلی اور نسلی گروہ موجود ہیں جن میں سے نصف کا تعلق کوکی نسلی گروہ ہے۔ ان مسلح گروہوں کی وجہ سے منی پور میں چومکھی لڑائی کا آغاز ہوا۔
مسلح گروپس اور سیاست
منی پور میں علیحدگی کی تحریکوں اور مختلف کمیونٹیز کے مسلح گروپس نے یہاں اسلحے اور منشیات کی تجارت کے لیے بھی سازگار ماحول فراہم کیا۔
رفتہ رفتہ مختلف نسلی گروہوں نے اپنے اپنے مفادات کے لیے مقامی سیاست میں بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے امیدواروں کی حمایت شروع کر دی۔
منی پور میں 2022 کے ریاستی الیکشن کے دوران کوکی مزاحمت کار گروپس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا۔
مختلف مسلح گروپس کی جانب سے مخالفین کے ڈرانے دھمکانے کے واقعات سامنے آئے جس کی بنا پر سول سوسائٹی کے مختلف گروپس نے اس الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھائے۔
حالیہ تنازع کیوں پیدا ہوا؟
حالیہ تنازع کا آغاز منی پور کی ہائی کورٹ کے ایک فیصلے سے ہوا جس میں ریاستی حکومت کو میتی کمیونٹی کو شیڈول ٹرائب کا درجہ دینے کا حکم دیا گیا تھا۔
اگرچہ 1956 میں میتی کمیونٹی میں شامل بعض نسلی گروپس کے لیے ایس ٹی کا درجہ تسلیم کرلیا گیا تھا تاہم 2012 میں میتی کمیوٹنی کے مختلف گروپس کی شیڈو ل ٹرائب ڈیمانڈ کمیٹی آف منی پور( ایس ٹی ڈی سی ایم) نے ہائی کورٹ میں پوری کمیونٹی کے لیے ایس ٹی کا درجہ دینے کے لیے درخواست دائر کی۔
اس درخواست پر میتی کمیونٹی کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد کوکی اور میتی گروپس کے درمیان فسادات پھوٹ پڑے جن میں اب تک 125 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 40 ہزار افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
میتی کمیونٹی کو منی پور ریاست میں کئی اعتبار سے دیگر قبائل اور گروپس پر برتری حاصل ہے۔ یہ کمیونٹی زیادہ تر شہری علاقوں میں بستی ہے اور ریاست کی کل آبادی کا نصف سے زائد ان پر مشتمل ہے۔
SEE ALSO: بھارتی ریاست منی پور میں فسادات؛ ماں بیٹے کو ایمبولنس میں زندہ جلا دیا گیاریاستی اسمبلی کی 60 میں سے 40 ارکان کا تعلق بھی میتی کمیونٹی سے ہے۔ اس کے مقابلے میں ریاست کے 90 فی صد رقبے پر کوکی اور ناگا افراد آباد ہیں۔
لیکن آبادی کے اعتبار سے یہ اقلیت میں ہیں۔ یہ زیادہ تر منی پور کے دشوار گزار اور پہاڑی علاقوں میں بستے ہیں تاہم ریاستی دارالحکومت امپھال میں بھی ان کی آبادی ہے جہاں ان سے تعلق رکھنے والے افراد زیادہ تر سرکاری ملازمین ہیں۔
ایس ٹی کی مخالفت
بھارتی آئین کے مطابق قبائلی افراد کو کئی امور میں قانونی تحفظ حاصل ہے۔ مثلاً منی پور میں کوئی بھی غیر قبائلی شخص قبائلی علاقوں میں جائیداد نہیں خرید سکتا۔
اسی طرح بھارتی آئین کے مطابق سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں وغیر میں ایس ٹی کا درجہ حاصل کرنے والے قبائل کا کوٹا مقرر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کوکی سمیت قبائل میتی کو ایس ٹی کا درجہ دینے کی مخالفت کرتے ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں میتی کمیونٹی پہلے ہی ریاست کی خوش حال کمیونٹی ہے اور اسے اگر ایس ٹی کا درجہ بھی مل جاتا ہے تو انہیں سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی کوٹے میں اپنے حصے کے ساتھ اپنی زمینوں سے بھی محروم ہونا پڑ سکتا ہے۔
اسی لیے جب ہائی کورٹ نے ایس ٹی کا درجہ دینے کی درخواست پر میتی کمیونٹی کے حق میں فیصلہ دیا تو کوکی اور ناگا جیسے مقامی قبائل نے احتجاج کیا اور تین مئی کو آل ٹرائل اسٹوڈنٹس یونین آف منی پور نے ریلی نکالی۔
اسی روز منی پور کے چور چند پور علاقے میں کوکیوں کی ایک جنگی یاد گار کو نذرِ آتش کر دیا گیا جس کے بعد کوکی گروپس نے علاقے میں بسنے والی میتی کمیونٹی پر حملے شروع کر دیے۔
اس کے جواب میں ریاستی دارالحکومت امپھال میں میتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مشتعل افراد نے مبینہ طور پر کوکی کمیونٹی کے کئی علاقوں میں مکانات کا آگ لگا دی۔ ان واقعات میں کئی افراد مارے گئے تھے۔
اراضی پر اختلافات
منی پور میں میتی اور کوکی کمیونٹی کے درمیان تنازع عروج پر پہنچ چکا ہے تاہم یہ لاوا کافی عرصے سے پک رہا تھا۔
بی جے پی کی موجودہ ریاستی حکومت پر الزام ہے کہ وہ امپھال کے نواح میں بسنے والی کوکی کمیونٹی کو نشانہ بنا رہی ہے اور پوست کی کاشت روکنے کے لیے ہونے والے جنگلات کے سروے کی آڑ میں کوکی کمیونٹی کو ان کے دیہات سے بے دخل کر رہی ہے۔
اس کے علاوہ 2021 میں میانمار میں ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد پناہ گزینوں کی آمد نے بھی کوکی اور میتی کمیونٹی کے اختلافات کو ہوا دی ہے۔
میانمار کے ساگینگ ریجن سے آنے والے پناہ گزینوں کے کوکیوں سے پرانے قبائلی روابط ہیں اس لیے ان کی آمد سے میتی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
میتی کمیونٹی کا دعویٰ ہے کہ انہیں میانمار اور بنگلہ دیش سے بڑی تعداد میں آنے والے تارکینِ وطن کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت میتی کمیونٹی کو منی پور کے پہاڑی علاقوں میں رہنے کی اجازت نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایس ٹی کا درجہ ملنے سے ان کی آبائی زمین، ثقافت اور شناخت کو قانونی تحفظ مل جائے گا۔ جب کہ کوکی اور دیگر قبائلی گروپس اس مطالبے کے مخالف ہیں۔
تنازع آئندہ کیا رُخ اختیار کرتا ہے؟
حالیہ فسادات کے دوران ابتدا میں بی جے پی کی مرکزی حکومت نے خاموشی اختیار کیے رکھی اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی ویڈیوز سامنے آںے کے بعد پہلی بار بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے منی پور کی صورتِ حال پر بیان دیا ہے۔
بھارت کی اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ بی جے پی آئندہ قومی الیکشن کے پیشِ نظر کوئی اقدام نہیں کر رہی ہے کیوں کہ کارروائی کی صورت میں اسے میتی اور کوکی کے متحارب گروپوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا جو انتخابی نتائج پر اثرا انداز ہو گی۔
لیکن حکومت اس تاثر کو مسترد کرتی ہے۔ گزشتہ ماہ بھارت کے وزیرِ داخلہ امت شاہ نے منی پور کا دورہ کر کے وہاں پرتشدد واقعات کی عدالتی تحقیقات کرانے اور مختلف کمیونٹیز کے نمائندوں پر مشتمل امن کمیٹیاں قائم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔
امت شاہ نے میانمار کی سرحد پر باڑ لگانے اور فسادات شروع ہونے کے بعد پولیس سے چھینے گئے 1420 ہتھیار واپس لینے کے لیے اقدامات کی ہدایت بھی کی تھی۔
اس دوران کئی مقامی کمیونٹیز اور منی پور میں قیام امن کے لیے مصالحانہ کوششیں کی گئیں جن میں انہیں قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔
شمال مشرقی بھارت میں سرگرم خواتین کی تنظیموں نے ’مدرز پیس کمیٹی‘ تشکیل دے کر کئی علاقوں میں امن قائم کرنے کی اپیلیں بھی جاری کی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ تنازع کو ختم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر مفاہمانہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
منی پور میں جاری تنازع نے یہاں بسنے والی تمام ہی کمیونٹیز کو متاثر کیا ہے۔
حالیہ برسوں میں چاول کی پیداوار میں کمی کے باعث انہیں بھوک اور غربت کا بھی سامنا ہے اور فسادات کی وجہ سے گزشتہ کئی ماہ سے اب ریاست میدانِ جنگ بنی ہوئی ہے۔