ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک نئی رپورٹ میں اس خیال سے اختلاف کیا گیا ہے کہ پناہ گزین اور تارکین وطن یورپی علاقوں میں چھوت کی غیر ملکی بیماریاں لے کر آتے ہیں۔
یورپ میں نقل مکانی کرنے والوں کی صحت پر عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کی جانے والی اس اولین رپورٹ میں تارکین وطن کی صحت سے متعلق مسائل پر گفتگو کی گئی ہے۔
یہ رپورٹ 13000 سے زیادہ دستاویزات سے متعلق شواہد پر مبنی ہے۔ یہ ان پناہ گزینوں اور تارکین وطن کی صحت کی ایک تصویر فراہم کرتی ہے جو 53 یورپی ملکوں میں موجود لگ بھگ ایک ارب آبادی کے تقریباً دس فیصد پر مشتمل ہیں۔
اس سروے سے معلوم ہوا ہے کہ تارکین وطن اور پناہ گزینوں کی صحت عمومی طور پر ٹھیک ہوتی ہے، لیکن دوران سفر، یا میزبان ملک میں قیام کے دوران رہن سہن کے خراب حالات کی وجہ سے انہیں بیمار پڑنے کا خطر ہ لاحق ہوتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عام تاثر کے برعکس پناہ گزینوں اور تارکین وطن کی جانب سے اپنی میزبان آبادی کو چھوت کی بیماریاں منتقل کرنے کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔ یورپ کے لیے عالمی ادارہ صحت کی علاقائی ڈائریکٹر سوزانہ جیکب نےوائس آف امریکہ کو بتایا کہ خود نقل مکانی ہی پناہ گزینوں اور تارکین وطن کے لیے چھوت کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے خطرے میں اضافہ کر دیتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ یورپ سے آنے والے پناہ گزین اور تارکین وطن اپنے ساتھ کوئی عجیب یا غیر ملکی چھوت کی بیماریاں نہیں لاتے۔ وہ ممکنہ طور پر جن بیماریوں میں مبتلا ہو تے ہیں وہ سب کی سب یورپ میں پہلے سے موجود ہیں ۔ اور ہمارے پاس ان بیماریوں سے بچاؤ اور کنٹرول کے بہت اچھے پروگرام موجود ہیں ۔ اس کا اطلاق ٹی بی ہی پر نہیں بلکہ ایچ آئی وی ایڈز پر بھی ہوتا ہے ۔
یورپ عالمی ادارہ صحت کے ان چھ خطوں میں سے جہاں وہ کام کر رہا ہے، واحد ہے جہاں ایچ آئی وی ایڈز موجود ہے اور اس میں اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر مشرق میں ۔جیکب کا کہنا ہے کہ تارکین وطن اور پناہ گزینوں کی آبادی کا ایک خاصا بڑا حصہ، جو ایچ آئی وی میں مبتلا ہے، اسے یہ متعدی مرض یورپ پہنچنے کے بعد لاحق ہوتا ہے ۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پناہ گزین اور تارکین وطن میزبان ملک میں آمد کے وقت بظاہر اپنی میزبان آبادیوں کی نسبت کم غیر متعدی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں، لیکن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ ان ملکوں میں غربت کے حالات میں جتنا زیادہ قیام کرتے ہیں، ان میں دل کی بیماریوں، اسٹروک اور کینسرمیں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پناہ گزین اور تارکین وطن میزبان آبادیوں کی نسبت ڈپریشن اور اینکزائٹی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایسے بچے جن کے ساتھ کوئی بڑ ا یا وارث نہیں ہوتا، جنسی استحصال کے خطرے سے دوچار ہوتے ہیں اور ان میں ڈپریشن یا ذہنی صدمات کے بعد کی بیماریوں کی علامات کی شرح زیادہ ہوتی ہے ۔
عالمی ادارہ صحت کے نزدیک یورپی ملکوں کے لیے انتہائی اہم ہے کہ وہ تمام پناہ گزینوں کو قطع نظر ان کی قانونی حیثیت کے ، صحت کی معیاری اورسستی سہولیات فراہم کریں ۔ ادارے کا کہنا ہے کہ عالمگیر سطح کی صحت کی سہولیات کی فراہمی سےنقل مکانی کرنے والی اور میزبان آبادیوں، دونوں کی عافیت میں نمایاں اضافہ ہو گا۔