یورپی یونین نے پاکستان میں بچوں کے حقوق اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق کی جانے والی حالیہ کوششوں کا خیر مقدم کیا ہے۔ ساتھ ہی انسانی حقوق سمیت کئی شعبوں میں قانون سازی پر عمل درآمد نہ ہونے پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔
یورپی یونین کی تجارت سے متعلق جنرلائزڈ اسکیم آف پریفرنسز (جی ایس پی) نے اپنی تیسری دو سالہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی یورپی یونین کو برآمدات میں تین سال سے مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے کے بعد یورپی یونین کو پاکستان سے برآمدات میں چھ ارب 80 کروڑ یورو کا اضافہ دیکھا گیا ہے جو تقریباً 50 فی صد اضافہ بنتا ہے۔
رپورٹ میں اس بات پر اطمینان کا ظاہر کیا گیا ہے کہ پاکستان نے خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ، غیرت کے نام پر قتل روکنے، خواجہ سراؤں کا تحفظ یقینی بنانے، ماحولیات کے تحفظ اور بہتر طرز حکمرانی میں کافی بہتری دکھائی ہے۔
رپورٹ میں اس بات پر بھی اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ نے ملٹری کورٹس میں شہریوں پر مقدمات چلانے کے قانون کو مزید توسیع نہیں دی۔
پاکستان نے ماحولیات کے تحفظ سے متعلق 'پیرس معاہدے' اور 'مانٹریال پروٹوکول' کے ترمیمی قوانین پر عمل درآمد میں مثبت پیش رفت دکھائی ہے۔ اسی طرح منشیات کے خلاف جنگ میں پاکستان اقوامِ متحدہ کے تعلیم سے متعلق اقدام میں آگے آگے ہے اور پاکستان کو بھنگ تیار کرنے والے ممالک کی فہرست سے بھی نکالا جا چکا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان گلوبل وارمنگ سے مقابلے کے پانچ نکاتی ایجنڈے پر کام کر رہا ہےیورپی یونین کی رپورٹ میں اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان کی اینٹی نارکوٹکس فورس نے منشیات فروشوں کو پکڑنے میں کافی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بالخصوص ان گروہوں کے خلاف جو تعلیمی اداروں کے اطراف میں منشیات فروخت کرتے تھے۔ البتہ اس بات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے کہ اسمگلنگ کے راستوں کو مکمل سیل کیا جائے اور علاقائی تعاون کو فروغ دیا جائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں بچوں سے مشقت سے متعلق قومی سروے کیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق سے متعلق قومی ایکشن پلان پر بھی عمل درآمد جاری ہے۔ رپورٹ میں خواتین اور بچوں کے حقوق کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے مختلف مہمات پر بھی اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ان جرائم کی تعداد کم کرنے پر بحث جاری ہے جن کی سزا موت مقرر ہے۔ اسی طرح پاکستان میں سزائے موت کی تعداد بھی کم ہوئی ہے جب کہ رحم کی اپیلیں دائر کرنے سے متعلق نظام میں بھی اصلاحات لائی گئی ہیں۔
البتہ ساتھ ہی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں انتہائی سنگین جرائم جن میں سزائے موت دی جا سکتی ہے، ان کی تشریح اور تعریف بین الاقوامی معیار اور قوانین سے ہم آہنگ دکھائی نہیں دیتی۔
رپورٹ میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں زراعت کے شعبے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو سماجی اور معاشی حقوق دینے سے متعلق پروگرام کامیابی سے چل رہا ہے جو پائیدار ترقی کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
'جبری گمشدگی پر قانون سازی نہ کی جا سکی'
یورپی یونین کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں اور مزدوروں سے متعلق قانون سازی نہیں ہوئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود اب تک جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کرنے والوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی شروع نہیں کی گئی۔ حالانکہ پاکستان 2012 میں جبری گمشدگی کو جرم تصور کرنے سے متعلق عالمی قوانین کو تسلیم کر چکا ہے۔
'ملک میں آزادی اظہار رائے برقرار رکھنا مشکل ہو گیا'
یورپی یونین نے اپنی رپورٹ میں آزادی اظہار پر عائد پابندیوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سول سوسائٹی اور اختلاف رائے رکھنے والی آوازوں کے لیے کام کرنا مشکل ہو گیا ہے جب کہ صحافیوں کے خلاف جرائم کرنے والوں کو "اعلیٰ درجے کا استثنیٰ" حاصل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آزادی اظہار رائے کو دبانے کے لیے قومی سلامتی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔
رپورٹ میں 144 بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں میں سے 20 کی رجسٹریشن منسوخ کرنے اور انہیں ملک بدر کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
'احتساب سب کے لیے ممکن بنایا جائے'
رپورٹ کے مطابق اگرچہ پاکستان کے قومی احتساب بیورو کا دعویٰ ہے کہ وہ آزادانہ طور پر کام کر رہا ہے، لیکن حقیقت میں اسے سیاسی جماعتوں کی جانب سے مبینہ انتقامی کارروائیوں پر شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی احتساب بیورو کو مزید اعتماد اور خود مختاری دینی چاہیے تاکہ سب کے لیے احتساب ممکن ہو سکے۔
رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے نئے کمشنرز کا چھ ماہ گزر جانے کے باوجود بھی تقرر نہیں کیا جا سکا ہے جس کے باعث اس ادارے کا کام متاثر ہو رہا ہے۔
منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے قانون سازی مکمل کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ 2018 کی رپورٹ کے مطابق جی ایس پی کے فوائد کے تحت یورپی یونین کی درآمدات میں پاکستان نو فی صد جب کہ بھارت اور بنگلہ دیش 25، 25 فی صد حصے دار رہے۔
اس رپورٹ کے پاکستان پر کیا اثرات پڑیں گے؟
یورپی یونین کی یہ رپورٹ تجارتی مقاصد سے متعلق اہم ہے۔ کئی تاجروں کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر یہ رپورٹ پاکستان کے حق میں ہے۔
ملک کے سب سے بڑے تجارتی مرکز کراچی کے تاجر رہنما اور معروف ایکسپورٹر محمد بابر خان کے مطابق یورپی یونین کی یہ رپورٹ حوصلہ افزا ہے جس میں پاکستان کے کئی اقدامات کی تعریف کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ سے ہماری برآمدات میں مزید اضافے کی توقع ہے۔ البتہ ابھی پاکستان کو بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
بابر خان کے بقول 20 سے 25 سال تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں رہنے سے پیدا ہونے والے مسائل، افراطِ زر بڑھنے، یوٹیلٹی اور لیبر مہنگی ہونے کے باعث تاجروں کو برآمدات بڑھانے میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کئی دہائیوں سے افرادی قوت کی صلاحیتوں میں بہتری کے لیے بھی کوئی خاص کوششیں نہیں کی گئیں جب کہ انفراسٹرکچر کی بری حالت کے باعث بھی تاجروں کو مشکلات درپیش ہیں۔ ان کے بقول اگر حکومت یہ مشکلات حل کرے تو برآمدات میں کئی گنا اضافہ ممکن ہو سکے گا۔
ایک اور تاجر رہنما شبیر احمد کا کہنا ہے کہ رپورٹ تو یقیناً حوصلہ افزا ہے لیکن جب تک ایکسپورٹرز کو حکومت کی جانب سے ان کے بقایا جات ریفنڈ نہیں کیے جاتے، ان میں اعتماد بحال نہیں کیا جا سکتا اور اس وقت تک برآمدی حجم بڑھانے کی کوششیں کامیاب ثابت نہیں ہو سکتیں۔
جی ایس پی رپورٹ کیا ہے؟
جنرلائزڈ اسکیم آف پریفیرنس (جی ایس پی) 27 ممالک پر مشتمل یورپی یونین کی تجارتی پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے جس کا مقصد ترقی پذیر ممالک سے تعاون کرنا اور ان کی پائیدار ترقی کو ممکن بنانا ہے۔
اس پروگرام کے تحت یورپی یونین ان ممالک میں غربت کے خاتمے، ملازمتوں کے مواقع بڑھانے، بین الاقوامی قوانین کی پاسداری اور دیگر نکات پر ریٹنگ کی جاتی ہے۔ اچھی ریٹنگ رکھنے والے ممالک کو یونین کے رکن ممالک سے تجارت میں مختلف قواعد اور ٹیرف میں نرمی فراہم کی جاتی ہے۔
اس پروگرام کے تحت دنیا کے ترقی پذیر ممالک کو ان کے کارکردگی کے حساب سے بالترتیب جی ایس پی، جی ایس پی پلس یا ای بی اے کا درجہ دیا جاتا ہے۔
اس وقت پاکستان سمیت آٹھ ممالک کو جی ایس پی پلس کا درجہ حاصل ہے۔ پاکستان کو یہ درجہ 2014 میں ملا تھا۔
جی ایس پی پلس سے اگلا درجہ ای بے اے کا ہے جو بنگلہ دیش کو حاصل ہے۔ ای بی اے کا درجہ حاصل کرنے والے ممالک یورپی یونین کے ساتھ معاہدے کے تحت مستقل تجارتی پارٹنر بن سکتے ہیں۔
یہ رپورٹ یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں پیش کر دی گئی ہے جس پر اب اس ماہ کے آخر میں پارلیمنٹ کوئی فیصلہ کرے گی۔