بلوچستان میں پھر جبری گمشدگیوں کے واقعات میں اضافہ، ایک ہفتے میں چار نوجوان لاپتا

فائل فوٹو

بلوچستان میں ایک بار پھر مبینہ طور پر جبری گمشدگیوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، گزشتہ ایک ہفتے کے دوران صوبے کے مختلف علاقوں سے چار نوجوانوں کے لاپتا ہونے کے واقعات رونما ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم "وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز" نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں سے 45 افراد کو جبری طور پر لاپتا کیا گیا ہے جب کہ ایک ماہ کے دوران تین افراد بازیاب ہو کر واپس گھروں کو لوٹے ہیں۔

"وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز" کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے "وائس آف امریکہ" سے گفتگو میں بتایا کہ ہماری تنظیم کا واضح موقف ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا راستہ اس وقت روکا جا سکتا ہے جب ریاستی اداروں کو بھی فریق بنایا جائے اور ان کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں کو اس معاملے میں جب تک بری الذمہ قرار دیا جاتا رہےگا تو اسی طرح لوگ لاپتا ہوتے رہیں گے۔ اگر ایک شخص بازیاب ہوگا تو 10 لاپتا ہوں گے۔

بلوچستان سے لاپتا ہونے والے چار افراد کون؟

کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ ولی جیٹ سے لاپتا ہونے والے نوجوان حافظ محمد یاسر کے خاندانی ذرائع نے ٹیلی فون پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ محمد یاسر 30 ستمبر کو اپنی دکان میں معمول کے مطابق موجود تھے کہ ایک سیاہ شیشوں والی گاڑی میں کچھ لوگ آئے اور محمد یاسر کو اپنے ساتھ لے گئے۔

ان کے خاندانی ذرائع نے الزام عائد کیا کہ جو لوگ یاسر کو ساتھ لے کر گئے وہ سیکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے جو سادہ لباس میں ملبوس تھے۔ ان افراد نے بتایا کہ تفتیش کے بعد یاسر کو چھوڑ دیا جائے گا مگر تاحال یاسر کی خیریت کے حوالے سے کچھ معلومات موصول نہیں ہوئیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ محمد یاسر کی گمشدگی کے حوالے سے ایف آئی آر درج نہیں کرائی گئی بلکہ وہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے ان کی بازیابی کے لیے کوشش کریں گے۔

محمد یاسر کے علاوہ اس تنظیم کو بلوچستان کے علاقے خضدار اور سندھ کے دارالحکومت کراچی سے دو بلوچ نوجوانوں کی گمشدگی کی شکایت موصول ہوئی، جس کے مطابق 26 ستمبر کو سراج احمد ولد بہرام سکنہ پپر شار کو عوامی ہوٹل خضدار اور 28 ستمبر کو لیاری سے سراج ولد اصغر کو ان کے گھروں سے حراست میں لے کرلاپتا کیا گیا۔

تنظیم کے مطابق 27 ستمبر کو سبزل آباد کے رہائشی برکت ولد محمد عارف اپنے گھر سے لاپتا ہوئے۔

دوسری جانب سیکیورٹی ذرائع کا جبری گمشدگیوں کے حوالے سے مؤقف ہے کہ اکثر لاپتا افراد بیرون ملک فرار ہو چکے ہیں یا بعض نے کالعدم عسکری تنظیموں میں شمولیت اختیار کر لی ہے، اس لیے ان کے لواحقین کے سیکیورٹی فورسز پرالزامات بے بنیاد ہیں۔

بلوچستان حکومت اس معاملے پر کہتی رہی ہے کہ اس کی کوشش سے اب تک 400 سے زائد لاپتا افراد بازیاب ہو کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں، جب کہ وہ دیگر افراد کی بازیابی کے لیے بھی کوشش کر رہی ہے۔

وائس آف امریکہ نے اس حوالے سے بلوچستان حکومت کی ترجمان فرح عظیم شاہ سے رابطہ کرنے کی کوشش بھی کی ، تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

"وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز" کے اعداد و شمار میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بلوچستان سے اب تک لاپتا ہونے والے افراد کی کل تعداد سات ہزار کے قریب ہے۔سال 2019 سے اب تک بازیاب ہونے والوں کی تعداد 640 کے قریب ہے۔

تنظیم کا دعویٰ ہے کہ دو ماہ کے دوران مزید 45 افراد لاپتا ہوئے ہیں۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ دعویٰ کرتے ہیں کہ بلوچستان میں سات انکاؤنٹرز میں 45 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے کئی افراد وہ تھے جن کا نام لاپتا افراد کی فہرست میں شامل تھے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دنوں ڈیرہ مراد جمالی میں سی ٹی ڈی نے جن چار افراد کو مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا تھا ان میں سے دو کی شناخت خاندان نے اکبر اور جیسف ولد نواب کے ناموں سے کی۔دونوں بھائی جولائی میں ڈیرہ مراد جمالی سے لاپتا ہوئے تھے۔