مصر کے شہر لکسر میں دریائے نیل کے کنارے سے لکڑی سے بنے 30 قدیم تابوت دریافت ہوئے ہیں جبکہ ہر تابوت میں ایک حنوط شدہ لاش (ممی) موجود ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے کے دوران ہونے والی اپنی نوعیت کی منفرد دریافت ہے۔
مصری وزارت آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ تمام تابوت مختلف رنگوں کے ہیں جو العاصف قبرستان سے دریافت ہوئی ہیں۔
تابوتوں میں مرد، خواتین اور بچوں کی حنوط شدہ لاشیں موجود ہیں۔
مصری نوادرات کے وزیر خالد العینی نے دریافت کے حوالے سے ہونے والی ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ یہ 19 ویں صدی کے آخر سے اب تک کا سب سے بڑا انسانی تابوں کا ذخیرہ ہے۔
اسی دریافت کے حوالے سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تین ہزار سال پرانے پیچیدہ نقش و نگار والے تابوتوں کو حنوط شدہ لاشوں کے ساتھ محفوظ کر لیا گیا تھا۔
تاریخ دانوں کے مطابق ان تابوں پر مختلف تحریریں موجود ہیں جبکہ تابوتوں پر مختلف رنگوں سے نقش و نگار بنے ہیں۔
ان تابوتوں کی دریافت کے لیے کی جانے والی کھدائی ٹیم کے سربراہ مصطفٰی الوزیری نے خیال ظاہر کیا ہے کہ حنوط شدہ لاشوں کا تعلق مصری پادریوں کے اعلیٰ خاندان سے ہے۔
وزارت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ تابوتوں کی مرمت کرکے انہیں اگلے سال اہرام گیزا سے متصل گرینڈ ایجپشین میوزیم کے ایک شو روم میں منتقل کردیا جائے گا۔
مصری حکومت کو امید ہے کہ اس دریافت سے شعبہ سیاحت کو فروغ ملے گا۔ 2011 میں صدر حسنی مبارک کی حکومت کو گرائے جانے کے بعد سے ملک میں سیاحت عدم استحکام کا شکار ہے۔
ادھر فرانس کے خبر رساں ادارے نے رپورٹ کیا ہے کہ تابوتوں کو زمین میں صرف ایک میٹر گہرائی سے کھود کر نکالا گیا ہے۔
کھدائی ٹیم کے سربراہ مصطفٰی الوزیری نے اس دریافت کو مقامی ماہرین آثار قدیمہ اور مزدوروں کی محنت کا نتیجہ قرار دیا۔
الوزیری کے مطابق 19 ویں صدی میں اس جگہ کی کھدائی سے شاہی مقبرے دریافت ہوئے تھے تاہم نئی دریافت سے پادریوں کے تابوتوں کا ایک بڑا مجموعہ برآمد ہوا ہے۔
مصر کی وزارت برائے نوادرات نے محفوظ اور سیل کیے گئے تابوتوں کی تصاویر سوشل میڈیا سائٹ پر شیئر کی تھیں۔
وزیر نوادرات خالد العنینی کے مطابق 2011 کے بعد سے تاریخی تابوتوں اور قدیم اشیا کی دریافت میں کمی نوٹ کی گئی ہے۔