کیا زمین کو ایک اور چاند ملنے والا ہے؟

  • ماہرین کے مطابق زمین کا اپنا چاند تو چار ارب سال سے اس کے ساتھ موجود ہے۔ لیکن منی مون دو ماہ تک ہی زمین کے مدار میں چکر لگائے گا۔
  • منی مون سے متعلق تفصیلات ناسا کی فنڈنگ سے ہونے والی ایک تحقیق کے نتیجے میں سامنے آئی ہیں۔
  • محققین کا کہنا ہے کہ جو اجرام فلکی زمین سے 28 لاکھ میل کے فاصلے پر اس کے مدار میں گردش کرنے لگیں وہ منی مون کہلاتے ہیں۔

ویب ڈیسک—ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ زمین کو ایک اور چاند ملنے والا ہے جو آئندہ ہفتے سے اس کے مدار میں چکر لگانا شروع کردے گا۔

تو کیا آسمان پر بیک وقت دو دو چاند نظر آیا کریں گے؟ اور کیا یہ نیا چاند بھی کیا پہلے والے کی طرح روشن ہوگا؟ محققین اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔

فلکیات کے ماہرین کے مطابق زمین کو ملنے والا یہ نیا چاند دراصل ایک شہابیہ یا چھوٹا سا سیارچہ ہے جس کا نام 2024 پی ٹی فائیو ہے اور جسے ’منی مون‘ یا ’چھوٹا چاند‘ بھی کہا جارہا ہے۔

ماہرین کے مطابق زمین کا اپنا چاند تو چار ارب سال سے اس کے ساتھ موجود ہے لیکن یہ منی مون صرف دو مہینے تک ہی زمین کے مدار میں چکر لگائے گا۔

چھوٹا چاند کب اور کہاں سے آئے گا؟

زمین کے اس نئے مہمان کو امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا کی فنڈنگ سے تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے رواں برس اگست میں ایک تحقیق کے دوران دریافت کیا تھا اور اس کا نام 2024 پی ٹی ایس فائیو رکھا تھا۔

جنوبی افریقہ میں زمین کے گرد شہابیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے والے سائنس دانوں کی یہ تحقیق امریکن آسٹرونومیکل سوسائٹی کے تحقیقی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔

اس تحقیق کے مطابق یہ شہابیے نظام شمسی میں موجود ’ارجنا ایسٹرائیڈ بیلٹ‘ سے زمین کے مدار میں آئے گا۔

ناسا کے مطابق ایسٹرائیڈ، شہابیے یا سیارچے دراصل 4.6 ارب سال پہلے نظامِ شمسی وجود میں آنے کے بعد بچ جانے والا ملبہ ہے۔ یہ شہابیے بڑی تعداد میں خلا میں حرکت کرتے رہتے ہیں۔ نظام شمسی میں ایسٹرائیڈ ایک ساتھ جہاں حرکت میں ہوتے ہیں انہیں ایسٹرائیڈ بیلٹ کہا جاتا ہے۔

خلا اور فلکیاتی تحقیق کی خبریں دینے والی ویب سائٹ ’اسپیس‘ سے بات کرتے ہوئے تحقیق کے سربراہ اور میڈرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر فونیتے مارکوس کا کہنا تھا کہ زمین کے مدار میں آنے والا یہ شہابیہ ارجنا ایسٹرائیڈ بیلٹ سے آیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سورج سے ڈیڑھ کروڑ کلو میٹر فاصلے پر موجود ایسٹرائیڈ بیلٹ کی گردش کا مدار زمین سے بہت مماثلت رکھتا ہے اور یہ زمین کے قریب پائے جانے والے شہابیوں اور دم دار ستاروں کے گروپ میں شامل ہے۔

SEE ALSO: پہلا پرائیوٹ اسپیس واک مشن کامیابی کے بعد واپس پہنچ گیا

منی مون کیا ہوتا ہے؟

زمین کے قریب پہنچنے پر کوئی بھی شہابیہ یات تو اپنی حرکت جاری رکھتے ہوئے گزر جاتا ہے یا اس کی سطح سے ٹکرا جاتا ہے۔ لیکن بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شہابیہ یا سیارچہ زمین کی ثقلی کشش یا ’گریویٹیشنل پل‘ کی گرفت میں آجائے۔

پلینیٹری سوسائٹی کے مطابق ایسے شہابیے کو منی مون کہا جاتا ہے تو جو ثقلی کشش کی وجہ سے عارضی طور پر زمین کے مدار میں گھومنا شروع کردے اور یہ مدت اوسطاً ایک سال سے کم ہوتی ہے۔

فونیتے مارکوس کا کہنا ہے کہ ارجنا بیلٹ سے بعض اور اجسام زمین سے لگ بگھ 45 لاکھ کلو میٹر کی رینج میں قریب آسکتے ہیں۔ اس میں سے 2024 پی فائیو 29 ستمبر تک زمین کے مدار کے قریب آئے گا۔

فونیتے مارکوز کا کہنا ہے کہ منی مون کے زمرے میں آنے کے لیے اجرام فلکی میں سے کسی شہابیے یا سیارچے وغیرہ کا زمین سے 28 لاکھ میل کے فاصلے تک آنا ضروری ہے اور اس کی رفتار 22 سو ایم پی ایچ ہونی چاہیے۔

ان کے بقول ستمبر کے اواخر تک زمین کے قریب پہنچنے والا شہابیہ ان شرائط پر پورا اترتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے ’منی مون‘ کہا جارہا ہے۔

SEE ALSO: چین کو چاند میں پانی کے آثار مل گئے

کیا ہم دو چاند دیکھ سکیں گے؟

اجرامِ فلکی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بری خبر یہ ہے کہ تقریباً دو ماہ تک زمین کا دوسرا چاند تو ہوگا۔ لیکن اسے انسانی آنکھ سے دیکھا نہیں جاسکے تھے۔

تحقیق کے مطابق یہ ایسٹرائیڈ حجم میں بہت چھوٹا ہے اور اسے صرف خاص صلاحیت رکھنے والی ٹیلی اسکوپ اور دور بین سے دیکھنا ممکن ہوگا۔

محقیق نے بتایا ہے کہ ایسٹرائیڈ کا حجم ایک بس جتنا ہوگا جس کی لمبای 33 فٹ ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ زمین کے گرد پورا چکر کاٹنے کے بجائے گھوڑے کی نعل سے مشابہ دائروی حرکت کرے گا۔

تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ ایسٹرائیڈ دو ماہ تک زمین کے مدار میں رہے گا اور اس کے بعد بھی چند ماہ زمین کے قریب ہی رہے گا جس کے بعد 2055 میں اس کی دوبارہ زمین کے مدار میں آمد متوقع ہوگی۔