|
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ واحد امریکی صدر ہیں جن کا دو بار مواخذہ کیا گیاہے اور وہ واحد صدر ہیں جنہیں فوجداری جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا۔ انہیں جیل کی ممکنہ سزا اور مزید دو فرد جرم کا سامنا ہے، جن دونوں میں ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے2020 کے انتخابات میں اپنی شکست کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔
لیکن ٹرمپ، جو اب 78 سال کے ہیں، مسلسل تیسرے صدارتی االیکشن کے لیے نامزد ریپبلکن صدارتی ہیں ۔ وہ جمعرات کی شب کو ریپبلکن نیشنل کنونشن میں اس نامزدگی کو قبول کریں گے۔اور وہ نومبر میں صدارتی انتخاب میں، وائٹ ہاؤس میں دوسری، غیر مسلسل، چار سالہ مدت کے لیے منتخب ہونے والے دوسرے امریکی صدر بن سکتے ہیں۔
1800 کی دہائی کے اواخر میں گروور کلیولینڈ کے یہ کامیابی حاصل کرنے کے بعد سے کوئی اور اس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈیموکریٹس ٹرمپ کو پسند نہیں کرتے لیکن ٹرمپ کے لاکھوں حامی ان سے محبت کرتے ہیں جنہوں نے 2016 میں "امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے" کے ان کے وعدے پر انہیں ووٹ دیا تھا۔ ان میں سے بہت سے لوگ اب بھی ان کے اس غلط دعوے پر یقین رکھتے ہیں کہ، تمام عدالتی نتائج کے برعکس، چار سال قبل دوسری مدت کے لیے انتخاب میں ان سے دھوکہ کیا گیا تھا
رئیل اسٹیٹ کے سابق ٹائیکون اور رئیلٹی شو کے میزبان، ٹرمپ نے خود بعض اوقات، تقریباً لاپرواہی میں یہ تسلیم بھی کیا ہے کہ وہ گزشتہ الیکشن نہیں جیتے تھے لیکن وہ اکثر یہی کہتے ہیں کہ وہ صرف اس لیے ہارے تھے کہ ووٹ میں اور ووٹوں کی گنتی میں ان کے خلاف دھاندلی کی گئی تھی۔
SEE ALSO: چھ جنوری حملہ: 'پراؤڈ بوائز' کے بانی کو17 سال جیل کی سزااب، رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ اور صدر جو بائیڈن کے درمیان بظاہر سخت مقابلہ ہے۔ بائیڈن نے جو ڈیموکریٹ ہیں، انہیں 2020 میں معمولی فرق سے شکست دی تھی، جب کہ 5 نومبر کے انتخابات کا فیصلہ کرنے والی، سخت مقابلے کی حامل متعدد ریاستوں میں وہ بائیڈن سے معمولی لیکن مستقل طور پر آگے ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سے رائے دہندگان کے خیال میں ٹرمپ نے امریکی معیشت کو جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، جو بائیڈن سے زیادہ بہتر مینیج کیا، اور وہ میکسیکو کے ساتھ امریکہ کی جنوب مغربی سرحد کے پار سے امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کے داخلےکو روکنے میں زیادہ سخت اور زیادہ کامیاب تھے۔
ٹرمپ نے اپنے ووٹروں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ 2020 کے انتخابات میں شکست کا بدلہ لیں گے اور کہا ہے کہ وہ ایک آمر ثابت ہوں گے، لیکن صرف نئی صدارتی مدت کے پہلے دن۔
Your browser doesn’t support HTML5
ٹرمپ نے قدامت پسند مبصر، شان ہینٹی سے بات کرتے ہوئے کہا،"ہم میکسیکو کے ساتھ سرحد بند کر رہے ہیں اور ہم ڈرلنگ، ڈرلنگ، ڈرلنگ کر رہے ہیں۔ اس کے بعد، میں ایک آمر نہیں ہوں گا، ٹھیک ہے؟
گزشتہ سال، ٹرمپ نے قدامت پسند وں کی ایک میٹنگ میں اپنے حامیوں کو بتایا، "2016 میں، میں نے اعلان کیا تھاکہ میں آپ کی آواز ہوں۔ آج، میں اضافہ کرتا ہوں، میں آپ کا جنگجو ہوں۔ میں آپ کے لیے انصاف ہوں۔ اور ان لوگوں کے لیے جن کے ساتھ غلط ہوا اور ان سے دھوکہ ہوا، میں آپ کا انتقام ہوں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، "ہم نے جو شروع کیا تھا اسے ختم کرنے جا رہے ہیں، ہم نے کچھ ایساشروع کیا تھاجو ایک معجزہ تھا۔ ہم مشن کو مکمل کرنے جا رہے ہیں؛ ہم اس جنگ کو حتمی فتح تک لے جائیں گے۔ ہم امریکہ کو ایک بار پھر عظیم بنائیں گے۔"
SEE ALSO: ریپبلکن نیشنل کنونشن کا دوسرا دن: غیر قانونی تارکینِ وطن امریکہ کا گھمبیر مسئلہ ہیں؟ان کا کہنا ہے کہ دوسری مدت میں وہ جو بائیڈن،ان کے خاندان اور "ان تمام دیگر افراد کا پیچھا کرنے کے لیے "ایک حقیقی اسپیشل پراسیکیوٹر مقرر کریں گے جو، "ہمارے انتخابات، سرحدوں اور خود ملک کی تباہی میں ملوث رہے۔"
ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ان لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کر کے ملک بدر کر دیں گے، جن میں سے کئی برسوں، یہاں تک کہ دہائیوں سے بغیر شہریت کے امریکہ میں مقیم ہیں۔ وہ امریکی مینوفیکچررز کے تحفظ کے لیے درآمدی اشیا پر زیادہ محصولات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکی فوجی طاقت کے بل پر دوسری عالمی جنگ کے بعد کے کلیدی فوجی اتحاد نیٹو کے مقصد اور مشن کا بنیادی طور پر از سر نو جائزہ لینے کے لیے وہ اپنا دباؤ از سرِ نو استعمال کریں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا موقف ہے کہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ اور غزہ میں اسرائیلی حماس تنازعہ ان کی نگرانی میں کبھی واقع نہیں ہوتا۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ لڑائی کو جلد ختم کر دیں گے تاہم انہوں نے اس بارے میں کوئی تفصیلات پیش نہیں کیں کہ وہ اسکا حصول کیسےکریں گے۔
ٹرمپ کہتے ہیں کہ وہ منشیات کے گروہوں سے لڑنے کے لیے امریکی فوجی میکسیکو بھیجنا چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی انہوں نےحکومتی پالیسیوں کے خلاف، ڈیموکریٹک کنٹرول والے امریکی شہروں میں وقتاً فوقتاً پھوٹنے والے احتجاج کو روکنے کے لیے بھی، فوجی بھیجنے کی بات کی۔
ملک کی 248 سالہ تاریخ میں بائیڈن-ٹرمپ مقابلے کی صورت میں ایسا ساتویں مرتبہ ہوگا کہ ایک ہی امیدوار مسلسل انتخابات میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوئے ہیں، لیکن 1956 کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے۔ جب ریپبلکن صدر ڈوائٹ آئزن ہاور نے، جو دوسری عالمی جنگ کے فوجی ہیرو تھے، ڈیموکریٹ ایڈلائی سٹیونسن کو دوسری بار شکست دی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ٹرمپ، جب صدر تھے تو ایوان نمائندگان نے دو بار ان کا مواخذہ کیا۔ ایک بار 2019 کے وسط میں،یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے بائیڈن کے خلاف مواد لانے کا اس وقت مطالبہ کرنے پر، جب یہ واضح ہوا کہ بائیڈن 2020 میں ممکنہ طور پر ٹرمپ کے مدِ مقابل ہوں گے، اور دوسری بار جب ان پر 6 جنوری 2021 کو امریکی دارالحکومت میں کانگریس کی عمارت پر چڑھائی اور ہنگامہ آرائی کو ہوا دینے کا الزام لگایا گیا تھا، جہاں قانون ساز یہ تصدیق کرنے کے لیے جمع تھے کہ بائیڈن نومبر 2020 کا الیکشن جیت چکے ہیں۔
دونوں بار، سینیٹ نے ٹرمپ کو مجرم نہیں ٹھہرایا، دوسری بار انہیں فروری 2021 میں ان کے عہدہ چھوڑنے کے تین ہفتے بعد الزامات سےبری کر دیا۔
پچھلے چند مہینوں میں، ایک دیوانی مقدمے میں، نیویارک کی ایک عدالت نے ٹرمپ کو کاروباری فراڈ کے لیے 355 ملین ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا، ایک الگ مقدمے میں، نیویارک کی ایک مصنفہ کو بدنام کرنے کے جرم میں 83 ملین ڈالر سے زیادہ کا جرمانہ ادا کرنے کے لیے کہا جو یہ دعویٰ جیت گئی تھیں کہ ٹرمپ نے 1990 کی دہائی میں نیویارک کے ایک ڈپارٹمنٹ اسٹور کے ڈریسنگ روم میں ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی۔ ٹرمپ ان دونوں فیصلوں کے خلاف اپیل کر رہے ہیں۔
2024 کے انتخابات سے پہلے ٹرمپ کو مزید قانونی پریشانیوں کا سامنا ہے۔
نیویارک کی ریاستی جیوری نے مئی کے آخر میں انہیں ان تمام 34 الزامات میں سزا سنائی جن کا سامناانہیں2016 کے انتخابات کے نتائج پر، جن میں انہوں نے کامیابی حاصل کی تھی، اثرانداز ہونے کی کوشش میں ٹرمپ آرگنائزیشن رئیل اسٹیٹ گروپ میں کاروباری ریکارڈ میں غلط بیانی کے باعث ہوا۔
پورن فلم اسٹار اسٹورمی ڈینیئلز کو اس بارے میں خاموش رکھنے کے لیےکہ ٹرمپ نے ان کے ساتھ ایک رات بسر کی تھی، ٹرمپ کو 130,000 ڈالرکی ادائیگی کو چھپانے کا مجرم قرار دینے سے پہلے جیوری نے مسلسل دو روز تک اس پر غور کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ٹرمپ نے ایسے کسی معاملے اور اپنے خلاف تمام الزامات کی تردید کی۔ انہوں نے اپنے دفاع میں گواہی نہ دینے کا حق استعمال کیا۔
اس کیس کے زیادہ تر واقعات جنوری 2017 میں ٹرمپ کے صدر بننے سے پہلے پیش آئے لیکن کچھ ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہوئے۔ انہوں نے مقدمے کی صدارت کرنے والے جج سے کہا ہے کہ وہ فیصلے کو کالعدم قرار دیں، اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہیں مقدمے سے استثنیٰ حاصل ہے کیونکہ ان کے خلاف مقدمے کے کچھ شواہد ان کے صدر بننے کے بعد کے واقعات سے متعلق تھے۔
امریکی سپریم کورٹ نے حال ہی میں فیصلہ دیا ہے کہ صدور کو ان کے سرکاری کاموں سے متعلق قانونی چارہ جوئی سے استثنیٰ حاصل ہے۔
لیکن اگر نیویارک سپریم کورٹ کے جسٹس وان مرچن نے فیصلے کو کالعدم نہیں کیا تو ٹرمپ کو 18 ستمبر کو سزا کا سامنا کرنا پڑے گا اور انہیں پروبیشن یا چار سال تک قید ہو سکتی ہے۔
انہیں جرم کا مرتکب قرار دینے کی، اور زیر التواء سزا کی امریکی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ہے لیکن امریکی آئین فوجداری جرائم کے مرتکب فرد کو صدارتی امیدوار بننے سے نہیں روکتا۔ مزید فرد جرم جن کا ٹرمپ کو سامنا ہے ان میں دو کا تعلق 2020 میں اپنی شکست کو غیر قانونی طور پر تبدیل کرنے کی کوشش سے ہے.
Your browser doesn’t support HTML5
انہیں ایک اور فرد جرم کا سامنا تھا جو 2021 میں اپنا عہدہ چھوڑنے کے بعد قومی سلامتی کی خفیہ دستاویزات، فلوریڈا میں اپنی مارآلاگو اسٹیٹ میں ذخیرہ کرنے سے متعلق ہے، بجائے اسکے کہ وہ انہیں نیشنل آرکائیوز کے حوالے کرتے، جیسا کہ انہیں کرنا چاہئے تھا۔
تاہم ایک وفاقی جج نے اس ہفتے اس کیس کو اس بنیاد پر ڈسمس کردیاکہ اسپیشل کونسل جیک اسمتھ کو اس کیس کے لیے غیر قانونی طور پر مقرر کیا گیا تھا،حکومت اس فیصلے کے خلاف اپیل کر رہی ہے۔
باقی دو کیسز میں ٹرمپ کے وکیلوں اوراستغاثہ کے درمیان قانونی رسہ کشی ہو رہی ہے، جس سے واحد نیو یارک ہش منی کیس کے نومبر کے انتخابات سے پہلے انجام تک پہنچنے کا امکان نظر آتا ہے۔ اگر باقی دو مقدمے آخر کار ٹرائل تک پہنچتے ہیں توسپریم کورٹ کی جانب سے استثنیٰ کا فیصلہ ان کےاسکوپ پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔
اگر ٹرمپ صدر کا انتخاب جیت جاتے ہیں، تو وہ اپنے اٹارنی جنرل سے جو حکومت کے اعلیٰ قانونی عہدیدار ہوتے ہیں، کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان کے خلاف واشنگٹن میں انتخابات میں مداخلت کا مقدمہ خارج کر دیں۔
ٹرمپ اور بائیڈن کا جون کے آخر میں ہونے والے ایک مباحثے میں سامنا ہوا، ٹرمپ کا انداز جارحانہ اور بائیڈن کی کارکردگی کمزور تھی۔ان کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹتا رہا اور وہ مسلسل ٹرمپ پر حملہ کرنے یا وائٹ ہاؤس میں اپنے ساڑھے تین سالہ دور کا دفاع کرنے سے قاصر رہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس کے نتیجے میں کچھ ڈیموکریٹس نے باوجود اسکے، بائیڈن سے اپنی دوبارہ انتخابی مہم ختم کرنے کی اپیل کی ہے جب بائیڈن نے انتخابی دوڑ سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ میڈیا کے تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ ٹرمپ نے مباحثے کے دوران 28 بار غلط بیانی کی۔
ٹرمپ ، جو اگرچہ بائیڈن سے صرف تین سال چھوٹے ہیں ، اکثر بائیڈن کو بہت معمر اور ملک چلانے کے لئے کمزور قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے اپنے حامیوں کے ایک اجتماع میں کہا، "وہ دو جملے ایک ساتھ نہیں بول سکتے اور وہ جوہری جنگ کے انچارج ہیں۔" ایک اور ریلی میں، ٹرمپ نے کہا، "میں صدر کے بارے میں زیادہ سخت نہیں ہونا چاہتا، لیکن میں کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ہمارے ملک کی تاریخ کے بدترین صدر ہیں، وہ ہمارے ملک کو تباہ کر رہے ہیں۔"
Your browser doesn’t support HTML5
تاہم، امیریکن پولیٹیکل سائنس ایسوسی ایشن سے وابستہ 154 صدارتی مورخین کے ایک گروپ نے اس سے اختلاف کیا۔ اس سال کے شروع میں، اس ایسوسی ایشن نے ٹرمپ کو ملک کے 46 صدور میں بدترین قرار دیا تھا۔
مورخین نے بائیڈن کو 14 واں بہترین صدر قرار دیا ہے۔
وائس آف امریکہ کی رپورٹ۔