کراچی کے پوش علاقے ڈیفینس ہاوسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) سے گزشتہ ہفتے اغوا ہونے والی لڑکی دعا منگی رات گئے گھر واپس پہنچ گئیں۔ تاہم پولیس اب تک اغوا کاروں کا سراغ لگانے میں ناکام رہی ہے۔ اہل خانہ بھی اس بارے میں کچھ بھی بتانے سے گریز کر رہے ہیں۔
دعا نثار منگی کو 30 نومبر کو ڈی ایچ اے کے بخاری کمرشل ایریا میں چائے کے ہوٹل کے باہر سے اسلحے کے زور پر اس وقت اغواء کرلیا گیا تھا جب وہ اپنے دوست حارث کے ساتھ چہل قدمی کر رہی تھیں۔
اس کارروائی کے دوران کار سوار ملزمان کی جانب سے فائرنگ بھی کی گئی جس سے دعا کے ساتھ موجود حارث زخمی ہوا تھا۔
#DuaMangi has returned home safely Alhumdulillah. The kidnappers are still at large. Two kidnappings DHA in 6 months both times kidnappers weren%27t caught. The hunt for them must continue otherwise Godforbid one of our family members could be the next victims
— M. Jibran Nasir (@MJibranNasir) December 7, 2019
اس واقعے کی تحقیقات میں کراچی پولیس نے جائے وقوع پر موجود افراد اور لڑکی کے اہل خانہ سمیت دو درجن سے زائد افراد کے بیانات ریکارڈ کیے تھے جن میں ہوٹل کا عملہ، قریب کھڑا رکشہ ڈرائیور، سیکیورٹی اہلکار اور لڑکی کی بہن، جو جائے وقوع پر کچھ ہی فاصلے پر ہی موجود تھیں، شامل ہیں۔
پولیس نے واقعے کا مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 365 کے تحت درج کیا تھا۔ جبکہ واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیجز پر بھی تحقیقات کی گئیں تاہم مغوی کی بازیابی میں کوئی کامیابی نہیں مل سکی تھی۔
ڈی آئی جی کراچی جنوبی شرجیل کھرل نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مغوی دعا منگی گھر واپس آچکی ہیں۔
پولیس حکام اب تک اغوا کاروں تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ پولیس کے مطابق مقدمے میں تفتیش اب بھی جاری ہے۔
دعا مانگی کے اہل خانہ ان کی بازیابی سے متعلق کچھ بھی بتانے سے گریز کر رہے ہیں۔ جس کے باعث یہ بات واضح نہیں ہوسکی کہ ان کے اغوا اور رہائی کی کیا وجوہات ہیں۔
بازیاب ہونے والی لڑکی کے گھر کے باہر موجود میڈیا سے والدہ نے مختصر گفتگو کرتے ہوئے بیٹی کی بازیابی میں میڈیا اور سول سوسائٹی کی جانب سے کردار ادا کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
تاہم اس واقعے سے پولیس کی کارکردگی پر کئی سوالات کھڑے ہوئے ہیں جو سات روز تک اغوا کاروں تک پہنچنے میں ناکام رہی جبکہ اسی وجہ سے دعا منگی کی رہائی کے لیے تاوان کی ادائیگی کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
ادھر سول سوسائٹی کی جانب سے دعا کے اغوا پر کئی احتجاج بھی کیے گئے جس میں انسانی حقوق کے کارکنوں، رشتے داروں اور عزیزوں کے علاوہ عام شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی۔