رسائی کے لنکس

کراچی سے طالبہ اغوا: ایک بار پھر اچھی اور بُری لڑکی کی بحث


فائل فوٹو
فائل فوٹو

کراچی کے علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) سے اغوا ہونے والی 20 سالہ طالبہ تاحال بازیاب نہیں ہو سکی ہے تاہم سوشل میڈیا پر مغوی لڑکی کے حوالے سے مختلف تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔

یکم دسمبر کی رات کو ڈی ایچ اے سے طالبہ کو اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ اپنے دوست کے ساتھ سڑک پر چہل قدمی کر رہی تھیں۔

اغوا کاروں نے لڑکی کے ہمراہ موجود اس کے دوست کو گولی ماری اور اسے اغوا کر لیا۔ پولیس کے مطابق مغوی لڑکی دعا منگی کے دوست حارث شدید زخمی ہیں جبکہ اسپتال میں ان کا علاج جاری ہے۔ لڑکی تاحال بازیاب نہیں ہو سکی ہے۔

دوسری جانب لڑکی کے اغوا کی خبر سامنے آنے پر سوشل میڈیا پر ایک بار پھر سے یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا اغوا ہونے والی لڑکی خود اس جرم کی ذمہ دار تو نہیں ہے؟

سوشل میڈیا پر تبصروں میں جہاں کچھ افراد مغوی لڑکی سے اظہارِ ہمدردی کرتے نظر آئے تو وہیں ایک بڑی تعداد میں سوشل میڈیا صارفین نے اس کے برعکس بھی اظہار خیال کیا۔

متعدد افراد نے اپنے تبصروں میں مغوی لڑکی کے مغربی لباس اور شام کے بعد دوست کے ساتھ باہر گھومنے پر تنقید کی جبکہ اغوا کی وجہ اُس کو ہی قرار دیا ہے۔

'آن لائن نفرت انگیز گفتگو کے خلاف قوانین موجود'

آئن لائن آزادی اظہار اور انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے ڈائریکٹر شہزاد احمد نے اس موضوع سے متعلق وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا آئین خواتین کے لباس اور ان کے کسی بھی وقت باہر نکلنے پر کوئی قدغن نہیں لگاتا۔

ان کے بقول کسی خاتون کے اغوا کو اس بات سے منسلک کرنا کہ وہ کیا پہن کر اور کہاں چہل قدمی کر رہی تھی، یہ بالکل بے کار بحث ہے۔

شہزاد احمد نے کہا کہ یہ پرانے حربے ہیں جو صدیوں سے چلے آ رہے ہیں جن کا مقصد جرم کی تمام ذمہ داری اس عورت پر ڈالنا ہے جس کے خلاف جرم سر زد ہوا ہو۔

سائبر کرائم قوانین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شہزاد احمد نے بتایا کہ کسی کو جرائم پر اکسانے اور نفرت انگیز گفتگو کے خلاف قوانین موجود تو ہیں لیکن اس کا اطلاق کسی مجمعے پر کرنا ممکن نہیں ہے۔

ان کے مطابق ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایسے حساس معاملات کو اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس لے جایا جائے تو ان میں پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا فقدان نظر آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی شخص اگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایسے خیالات کا اظہار کرتا ہے جو کسی کو نقصان پہنچانے پر اکساتے ہوں، تو ایسے افراد قانون کی گرفت میں آ سکتے ہیں۔

ٹوئٹر اور فیس بک پر کچھ افراد نے تبصرے کرتے ہوئے واقعے کا ذمہ دار مغوی لڑکی کے والدین کو بھی ٹھہرایا کیوں کہ انہوں نے اس کو ’غیر مناسب‘ وقت پر گھر سے نکلنے کی اجازت دی۔

'پورا معاشرہ انحطاط کا شکار'

کچھ تبصرے اُس لڑکی کے ممکنہ طور پر ’فیمینسٹ‘ ہونے سے متعلق ہیں۔ جہاں یہ بات باور کرائی گئی ہے کہ ایسے واقعات فیمینزم کی وجہ سے پیش آ رہے ہیں۔

ان رویوں سے متعلق ماہرِ نفسیات ڈاکٹر نصرت حبیب رانا کہتی ہیں کہ یہ انتہائی غیر مناسب رویہ ہے اور ایسے رجحانات کی بڑی وجہ بھی سوشل میڈیا ہی ہے جس کے بے دریغ استعمال نے نئی نسل کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔

ڈاکٹر نصرت حبیب رانا کا کہنا تھا کہ چونکہ تبصرہ کرنے والا اس شخص کے سامنے موجود نہیں ہوتا جس سے متعلق وہ بات کر رہا ہو، لہٰذا وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کی بات کا سننے والے پر کیا اثر ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کی لڑکی کے اغوا کے کیس میں جو تبصرے سامنے آ رہے ہیں وہ اسی ذہنی پسماندگی کا شاخسانہ ہیں جس ذہنی انحطاط کا شکار پورا معاشرہ ہے۔

ڈاکٹر نصرت کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ نسل کے پاس کوئی سیاسی یا سماجی رول ماڈل ہی نہیں ہے جس سے متاثر ہو کر وہ اپنے لیے بہتر اخلاقی اقدار کا انتخاب کریں۔

وہ کہتی ہیں کہ متاثرہ شخص کو ہی اس کی تباہی کا ذمہ دار قرار دینا اس بات کا اشارہ ہے کہ تعلیم کا حصول کافی نہیں بلکہ نئی نسل کی اخلاقی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔

ڈاکٹر نصرت حبیب رانا نے معاشرے کے مختلف طبقات اور میڈیا کو بھی مثبت کردار ادا کرنے پر زور دیا۔

  • 16x9 Image

    گیتی آرا

    گیتی آرا ملٹی میڈیا صحافی ہیں اور وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے نیوز اور فیچر سٹوریز تحریر اور پروڈیوس کرتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG