حکومت، تحریک لبیک معاہدہ؛ 'تشدد کی سیاست ختم کرنے کے بدلے الیکشن لڑنے کی اجازت'

پاکستان میں کالعدم تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور حکومت کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی تفصیلات سامنے نہ آنے کے باوجود ٹی ایل پی کے ہزاروں کارکنوں کی رہائی اور اسے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دینے کی اطلاعات ہیں۔

اطلاعات کے مطابق کالعدم ٹی ایل پی نے حکومت کو آئندہ تشدد کی سیاست سے گریز کرنے اور فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کے مطالبے سے مبینہ طور پر پیچھے ہٹنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

تحریک لبیک کی مذاکراتی ٹیم کے دو اراکین اور ایک حکومتی مذاکرات کار نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ معاہدے کا مرکزی نکتہ ٹی ایل پی پر عائد پابندی ہٹانا اور اسے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دینا تھا۔

ٹی ایل پی کی مذاکراتی کمیٹی میں شامل فلاحی تنظیم سیلانی ویلفیئر کے سربراہ بشیر فاروقی نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ ٹی ایل پی نہ تو کالعدم تنظیم ہے اور نہ ہی یہ دہشت گرد گروپ ہے۔

مذاکراتی کمیٹی میں شامل تین افراد نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ حکومت لاہور ہائی کورٹ میں ٹی ایل پی کے امیر سعد رضوی کی رہائی کے خلاف دائر درخواست واپس لے لی گی اور تحریک کے زیرِ حراست 2300 کارکنوں کی رہائی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔

واضح رہے کہ پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت پر فرانسیسی سفیر کی بے دخلی اور ٹی ایل پی کے امیر سعد رضوی کی رہائی کے مطالبات پر ٹی ایل پی نے جمعہ 22 اکتوبر کو لاہور سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ شروع کیا تھا جسے روکنے کے لیے جھڑپوں کے دوران ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔

حکومتِ پاکستان اور ٹی ایل پی کے درمیان اتوار کو مذاکرات کے نتیجے میں معاہدہ طے پایا تھا جسے ابتدائی طور پر خفیہ رکھا جا رہا ہے۔

مذاکراتی ٹیم کے رُکن بشیر فاروقی نے ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ معاہدے کو کامیاب بنانے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا ایک ہزار فی صد کردار ہے۔

ٹی ایل پی کے ایک ہزار کارکن رہا کر دیے: وزیرِ قانون پنجاب

پنجاب کے وزیرِ قانون راجہ بشارت کا کہنا ہے کہ ٹی ایل پی کے لگ بھگ ایک ہزار کارکنوں کو رہا کیا جا چکا ہے۔

خیال رہے کہ رواں برس اپریل میں بھی ٹی ایل پی نے انہی مطالبات کو منوانے کے لیے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔ البتہ مارچ کو روکنے کے لیے حکومت نے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کرتے ہوئے تحریک کے امیر سعد رضوی کو گرفتار کر لیا تھا جس کے بعد تشدد کے واقعات میں ٹی ایل پی کے کارکنوں اور پولیس اہل کاروں کی ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔

بعدازاں حکومتِ پاکستان نے تحریک لبیک کو کالعدم جماعت قرار دیتے ہوئے اسے تحلیل کرنے کی کارروائی کا آغاز کر دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ٹی ایل پی ضمنی انتخابات میں حصہ لیتی رہی تھی۔

پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے چند روز قبل ایک پریس کانفرنس میں اعتراف کیا تھا کہ حکومت نے ٹی ایل پی پر مکمل پابندی عائد کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رُجوع نہیں کیا تھا۔

SEE ALSO: حکومت اور تحریکِ لبیک کا 'خفیہ' معاہدہ، کیا ریاست کی رٹ کمزور ہوئی؟

خیال رہے کہ تحریک لبیک پاکستان نے 2018 کے عام انتخابات میں 20 لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے اور وہ ملک کی پانچویں بڑی جماعت بن کر اُبھری تھی۔

ٹی ایل پی نے اعلان کر رکھا ہے کہ تحریک کے امیر سعد رضوی کی رہائی تک ان کے کارکن وزیرِ آباد شہر میں دھرنا جاری رکھیں گے۔

پنجاب پولیس نے تصدیق کی تھی کہ ٹی ایل پی کے مارچ کے دوران ہونے والی مختلف جھڑپوں میں چھ اہل کار ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ البتہ ٹی ایل پی نے بھی ان جھڑپوں میں اپنے کارکنوں کی ہلاکتوں کے دعوے کیے تھے۔

ٹی ایل پی کے مارچ کے دوران کئی روز تک لاہور سے اسلام آباد کو ملانے والی جی ٹی روڈ پر ٹریفک کا نظام درہم برہم رہا تھا جب کہ جھڑپوں کے دوران سرکاری اور نجی املاک کو بھی نقصان پہنچا تھا۔

اس خبر کے لیے بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔