'حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کوئی بھی کہیں بھی کسی بھی وقت یہ فلرز کسی بھی شخص کے ہاتھوں لگوا سکتا ہے، جس کے بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں'
خواتین فلمی ستاروں کے خوبصورت چہروں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں، خصوصاً انھیں جنھیں بڑھاپا چھو کر نہیں گذرتا۔ تقریباً ایک دہائی قبل میرے اور آپ کے لیے ان فلمی ستاروں کی خوبصورتی کے راز تک رسائی حاصل کرنا مشکل تھا۔ کیونکہ، اُس دور میں پلاسٹک سرجری ایک انتہائی مہنگا علاج ہوا کرتا تھا جو صرف شو بزنس سے وابستہ لوگوں کی ہی ضرورت سمجھا جاتا تھا۔
پلاسٹک سرجری کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کے باعث کاسمیٹک ٹریٹمنٹ میں استعمال ہونے والی سینکڑوں اقسام کی مصنوعات آج بازار میں با آسانی دستیاب ہیں، جن کی قیمت اس زمانے کے مقابلے میں اب ایک تہائی بھی نہیں رہی ہیں۔
حالیہ دنوں میں کاسمیٹک ٹریٹمنٹ کو فیشن کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ خصوصاً چہرے کی کاسمیٹک سرجری میں استعمال ہونے والے فلرز خواتین کی ضرورت اور خواہش کے مطابق ہوتے ہیں جن سےآپریشن کئے بغیر خاطر خواہ نتائج حاصل ہو جاتے ہیں۔ یہ طریقہ علاج خاص طور پر نوکری پیشہ خواتین میں زیادہ مقبول ہوتا جا رہا ہے۔
ڈرمل فلرزDermal fillers ایک جیل جیسی چیز ہوتی ہےجسے انجکشن کے ذریعے براہ راست چہرے کے مخصوص حصوں پر لگایا جاتا ہےجہاں جلد پر ڈھلتی عمر کے اثرات ظاہر ہونے لگتے ہیں ۔ بوٹیکس کا انجکشن چہرے کی جھریوں اورماتھے کی شکنیں دور کرنے کے لیے لگوایا جاتا ہے جبکہ ڈرمل فلرز کے ذریعےجلد کی قدرتی لچک کو دوبارہ حاصل کیا جاسکتا ہے ہےاس کے علاوہ لیزر ہئیر ریمول بھی ان دنوں بہت عام ہے ۔
کیونکہ یورپ میں ڈرمل فلرز انجکشن ادویات کی فہرست میں شامل نہیں ہیں اس لیے انھیں خریدنے کے لیےڈاکٹر کی تجویز کردہ نسخے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جبکہ، انھیں استعمال کرنے کے لیےنرس یا ڈاکٹر کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، بلکہ صرف نصف روز پر مشتمل کورس مکمل کرنے پر کوئی فرد بھی اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ کسی کو بھی ڈرمل فلرز کے انجکشن لگا سکے۔
برطانیہ میں کسی اچھے بیوٹی پارلرمیں ڈرمل فلرزانجکشن کی قیمت 250 پاؤنڈ پر سیشن ہے ان میں لمبی مدت اور کم مدت کے فلرز بھی دستیاب ہیں۔ ڈرمل فلرز کا ایک سیشن پندرہ سے تیس منٹ کا ہوتا ہے، جو کم از کم 6 سے 12ماہ کی مدت کے لیے مفید ہے۔جبکہ ڈرمل فلرز سیلف انجکشن آن لائن آرڈر دے کر بھی منگوائے جاسکتے ہیں ۔
گذشتہ ہفتے برطانوی قومی ادارہ برائے صحت نےاپنی ایک رپورٹ میں کاسمیٹک مصنوعات کو ایک بڑی تباہی قرار دیا ہے جبکہ ،اس مسئلے کے حل کے لیے کمیٹی کی جانب سے حکومت کو کچھ تجاویز پیش کی گئی ہیں ۔
کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ ،کاسمیٹک ٹریٹمنٹ کی مصنوعات کےآذادانہ استعمال پر پابندی عائد کی جائے اور انھیں میڈیکل قوانین کے تحت رجسٹرڈ کیا جائے ۔ خصوصا ڈرمل فلرز انجکشن کو خریدنے کے لیے ڈاکٹر کے نسخہ کی شرط عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ طریقہ علاج صرف نرس یا پریکٹشنرزاور ڈاکٹروں کے ذریعے ہی انجام دیا جانا چاہیئے۔
برطانوی محکمہٴ صحت کے ایک نجی ادارے این ایچ ایس کے ڈائریکٹر 'سر بروس کیوح'، جو اس کمیشن کی سربراہی کر رہے تھے، انھوں نے کہا کہ،'حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کوئی بھی کہیں بھی کسی بھی وقت یہ فلرز کسی بھی شخص کے ہاتھوں سے لگوا سکتا ہے جس کے بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔'
اس ضمن میں توجہ طلب مسئلہ یہ ہے کہ ،مریضوں کو ان ڈرمل فلرز کے اجزاء اور اس کے نقصانات سے بے خبر رکھا جاتا ہے ذاتی مفاد کے حصول کے لیےعوام کی بھلائی کو نظر اندازکیا جارہا ہے جس کی وجہ سےمریض غیر محفوظ ہوکر رہ گئے ہیں۔
دوسری طرف کاسمیٹک سرجری کی کمپنیوں کی تمام تر دلچسپی ان کے منافع پر مرکوز رہتی ہے برطانیہ میں کاسمیٹک ٹریٹمنٹ ایک منافع بخش کاروبار ہے سال 2010 میں اس شعبئہ میں ہونے والی کل سیل 2.3 بلین پاؤنڈ یعنی 3.6 بلین امریکن ڈالر تھی جبکہ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ، اس بزنس کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سال 2015تک یہ سیل بڑھکر 3.6تک جا پہنچے گی ۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں ایسے ڈرمل فلرز فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈ منسٹریشن کے زیر نگرانی ہیں جبکہ وہاں رجسٹرڈ ڈرمل فلرز کی کل تعداد بامشکل 14 ہے جبکہ یورپ میں مختلف اقسام کے فلرز کی کل تعداد تقریبا 190کے قریب ہیں ۔
اس رپورٹ میں ڈاکٹروں نے کاسمیٹک مصنوعات سے پہنچنے والے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح بہت سی خواتین ان ڈرمل فلرز کے باعث جلد کی بیماریوں کا شکار ہوکر ان کے پاس آتی ہیں جن میں جلد کے اندرگٹھلیاں بن جانا بہت عام ہے جسے صرف سرجری کے ذریعے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔ کئی بار ان کے چہرے پر نشانات پڑ جاتے ہیں یا پھر آنکھ سے نزدیک دئیے جانے والا انجکشن بینائی پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
اس کمیٹی نے اپنی تجاویزمیں ذرائع ابلاغ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کاسمیٹک ٹریٹمنٹ کے اشتہارات پرپابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ' عموماً میگزین یا آن لائن نظر آنے والے اشتہارات میں لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیےمختلف حربے استعمال کئے جاتے ہیں مثلاً ایک سیشن کروانے پر دوسرا سیشن مفت حاصل کرنے کی پشکش یا پھر قسطوں میں ادائیگی کرنے کی سہولت جس سے متاثر ہو کر خواتین خود ہی چھری کے نیچے آجاتی ہیں ۔ '
برطانوی وزیر صحت ڈین پولٹر نے ان تجاویز پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ان تمام گزارشات کا تفصیلی جواب چند ماہ میں پیش کرے گی۔
پلاسٹک سرجری کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کے باعث کاسمیٹک ٹریٹمنٹ میں استعمال ہونے والی سینکڑوں اقسام کی مصنوعات آج بازار میں با آسانی دستیاب ہیں، جن کی قیمت اس زمانے کے مقابلے میں اب ایک تہائی بھی نہیں رہی ہیں۔
حالیہ دنوں میں کاسمیٹک ٹریٹمنٹ کو فیشن کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ خصوصاً چہرے کی کاسمیٹک سرجری میں استعمال ہونے والے فلرز خواتین کی ضرورت اور خواہش کے مطابق ہوتے ہیں جن سےآپریشن کئے بغیر خاطر خواہ نتائج حاصل ہو جاتے ہیں۔ یہ طریقہ علاج خاص طور پر نوکری پیشہ خواتین میں زیادہ مقبول ہوتا جا رہا ہے۔
ڈرمل فلرزDermal fillers ایک جیل جیسی چیز ہوتی ہےجسے انجکشن کے ذریعے براہ راست چہرے کے مخصوص حصوں پر لگایا جاتا ہےجہاں جلد پر ڈھلتی عمر کے اثرات ظاہر ہونے لگتے ہیں ۔ بوٹیکس کا انجکشن چہرے کی جھریوں اورماتھے کی شکنیں دور کرنے کے لیے لگوایا جاتا ہے جبکہ ڈرمل فلرز کے ذریعےجلد کی قدرتی لچک کو دوبارہ حاصل کیا جاسکتا ہے ہےاس کے علاوہ لیزر ہئیر ریمول بھی ان دنوں بہت عام ہے ۔
کیونکہ یورپ میں ڈرمل فلرز انجکشن ادویات کی فہرست میں شامل نہیں ہیں اس لیے انھیں خریدنے کے لیےڈاکٹر کی تجویز کردہ نسخے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جبکہ، انھیں استعمال کرنے کے لیےنرس یا ڈاکٹر کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، بلکہ صرف نصف روز پر مشتمل کورس مکمل کرنے پر کوئی فرد بھی اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ کسی کو بھی ڈرمل فلرز کے انجکشن لگا سکے۔
برطانیہ میں کسی اچھے بیوٹی پارلرمیں ڈرمل فلرزانجکشن کی قیمت 250 پاؤنڈ پر سیشن ہے ان میں لمبی مدت اور کم مدت کے فلرز بھی دستیاب ہیں۔ ڈرمل فلرز کا ایک سیشن پندرہ سے تیس منٹ کا ہوتا ہے، جو کم از کم 6 سے 12ماہ کی مدت کے لیے مفید ہے۔جبکہ ڈرمل فلرز سیلف انجکشن آن لائن آرڈر دے کر بھی منگوائے جاسکتے ہیں ۔
گذشتہ ہفتے برطانوی قومی ادارہ برائے صحت نےاپنی ایک رپورٹ میں کاسمیٹک مصنوعات کو ایک بڑی تباہی قرار دیا ہے جبکہ ،اس مسئلے کے حل کے لیے کمیٹی کی جانب سے حکومت کو کچھ تجاویز پیش کی گئی ہیں ۔
کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ ،کاسمیٹک ٹریٹمنٹ کی مصنوعات کےآذادانہ استعمال پر پابندی عائد کی جائے اور انھیں میڈیکل قوانین کے تحت رجسٹرڈ کیا جائے ۔ خصوصا ڈرمل فلرز انجکشن کو خریدنے کے لیے ڈاکٹر کے نسخہ کی شرط عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ طریقہ علاج صرف نرس یا پریکٹشنرزاور ڈاکٹروں کے ذریعے ہی انجام دیا جانا چاہیئے۔
برطانوی محکمہٴ صحت کے ایک نجی ادارے این ایچ ایس کے ڈائریکٹر 'سر بروس کیوح'، جو اس کمیشن کی سربراہی کر رہے تھے، انھوں نے کہا کہ،'حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کوئی بھی کہیں بھی کسی بھی وقت یہ فلرز کسی بھی شخص کے ہاتھوں سے لگوا سکتا ہے جس کے بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔'
اس ضمن میں توجہ طلب مسئلہ یہ ہے کہ ،مریضوں کو ان ڈرمل فلرز کے اجزاء اور اس کے نقصانات سے بے خبر رکھا جاتا ہے ذاتی مفاد کے حصول کے لیےعوام کی بھلائی کو نظر اندازکیا جارہا ہے جس کی وجہ سےمریض غیر محفوظ ہوکر رہ گئے ہیں۔
دوسری طرف کاسمیٹک سرجری کی کمپنیوں کی تمام تر دلچسپی ان کے منافع پر مرکوز رہتی ہے برطانیہ میں کاسمیٹک ٹریٹمنٹ ایک منافع بخش کاروبار ہے سال 2010 میں اس شعبئہ میں ہونے والی کل سیل 2.3 بلین پاؤنڈ یعنی 3.6 بلین امریکن ڈالر تھی جبکہ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ، اس بزنس کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سال 2015تک یہ سیل بڑھکر 3.6تک جا پہنچے گی ۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں ایسے ڈرمل فلرز فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈ منسٹریشن کے زیر نگرانی ہیں جبکہ وہاں رجسٹرڈ ڈرمل فلرز کی کل تعداد بامشکل 14 ہے جبکہ یورپ میں مختلف اقسام کے فلرز کی کل تعداد تقریبا 190کے قریب ہیں ۔
اس رپورٹ میں ڈاکٹروں نے کاسمیٹک مصنوعات سے پہنچنے والے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح بہت سی خواتین ان ڈرمل فلرز کے باعث جلد کی بیماریوں کا شکار ہوکر ان کے پاس آتی ہیں جن میں جلد کے اندرگٹھلیاں بن جانا بہت عام ہے جسے صرف سرجری کے ذریعے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔ کئی بار ان کے چہرے پر نشانات پڑ جاتے ہیں یا پھر آنکھ سے نزدیک دئیے جانے والا انجکشن بینائی پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
اس کمیٹی نے اپنی تجاویزمیں ذرائع ابلاغ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کاسمیٹک ٹریٹمنٹ کے اشتہارات پرپابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ' عموماً میگزین یا آن لائن نظر آنے والے اشتہارات میں لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیےمختلف حربے استعمال کئے جاتے ہیں مثلاً ایک سیشن کروانے پر دوسرا سیشن مفت حاصل کرنے کی پشکش یا پھر قسطوں میں ادائیگی کرنے کی سہولت جس سے متاثر ہو کر خواتین خود ہی چھری کے نیچے آجاتی ہیں ۔ '
برطانوی وزیر صحت ڈین پولٹر نے ان تجاویز پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ان تمام گزارشات کا تفصیلی جواب چند ماہ میں پیش کرے گی۔