واشنگٹن —
’پنک ربن‘ نامی ایک تنظیم کے محتاط اعداد و شمار کےمطابق، پاکستان میں ہر سال 90 ہزار خواتین چھاتی کے سرطان کا شکار ہوتی ہیں، جِن میں سے 40 ہزار موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر خواتین چھاتی کے سرطان کی بیماری اور علاج کےبارے میں معلومات کے فقدان کا شکار ہیں۔ اِس لیے، زیادہ تر واقعات میں مریضوں میں بیماری کی تشخیص ایسےمرحلے پر ہوتی ہے جب اِس مرض کا علاج ممکن نہیں ہوتا۔ جبکہ، معاشرتی اور سماجی دباؤ کے پیش ِنظر اِس بیماری کو چھپایا بھی جاتا ہے، جس کے باعث اس کا شکار ہونے والی خواتین کو علاج میں دشواری بھی پیش آتی ہے۔
آج ہم آپ کو ملوا رہے ہیں ایک ایسی خاتون سے جنھوں نے ان تمام دشواریوں کے باوجود پاکستان میں رہ کر اس بیماری کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، اور ناصرف بریسٹ کینسر کو شکست دی بلکہ ساتھ میں اِس بیماری کےبارے میں ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے منفی نظریات کو بھی شکست دی۔
راحت حسنات پیشے کے لحاظ سے ایک کالج پروفیسر ہیں۔ اُنھیں اپنی بیماری کےبارے میں اُس وقت پتا چلا جب وہ اپنی ایک کولیگ کے ساتھ شوکت خانم کینسر ہاسپٹل گئیں، اور ان کے کہنے پر اپنے ٹیسٹ کروائے۔ اگرچہ راحت کو کسی بھی قسم کی بیماری کے اثرات نہیں تھے، وہ مکمل طور پر تندرست اور ایک نہایت مصروف زندگی گزارنے والی خاتون تھیں۔ لیکن، اُن کے ٹیسٹ کی رپورٹ نے انھیں چونکا دیا۔
رپورٹس کے مطابق، اُنھیں بریسٹ کینسر تھا اور فوری علاج کی ضرورت تھی۔ راحت کا کہنا ہے کہ جب اُنھیں پتا چلا تو وہ ڈر گئیں۔ اُنھیں اپنے بچوں اور خاوند کا خیال آیا اور اُن کی پوری زندگی اُن کے سامنے ایک فلم کی طرح چلنے لگی۔یہ بات ہے آج سے 10 سال پہلے کی ، اور پاکستان جیسے ترقی پذیر اور صحت کی سہولیات کے لحاظ سے ایک پسماندہ ملک میں کینسر یا سرطان کو موت کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ لیکن، اُنھوں نے سب سے پہلے اپنے آپ کو سنبھالا، ڈاکٹر کی بات کو سنا، سمجھا اور اپنے گھر والوں سے بات کی ۔ امریکہ میں موجود اپنے بھائی سے مشورہ کیا اور آخر کار اس بات پر سب متفق ہوئے کہ علاج امریکہ کی بجائے پاکستان میں ہی کروایا جائے۔
راحت کا کہنا ہے کہ سب سے پہلی چیز جو اِس قسم کی بیماری کے علاج میں مددگار ثابت ہوتی ہے وہ ہے آپ کا خود اس بات کو تسلیم کرنا کے آپ کو یہ بیماری ہے اور آپ نے اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہ مریض کے اپنے اوپر منحصر ہوتا ہے وہ کیا سوچتا ہے اور کیسے اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرتا ہے۔
اپنے بارےمیں بتاتے ہوئے اُنھوں نےکہا کہ جب ڈاکٹر نے اُنھیں بتایا کہ اُنھیں سرجری کی ضرورت ہے تو وہ فوراً تیار ہو گئیں اور کوئی وقت ضائع نہیں کیا۔ بلکہ ، وہ چاہتی تھیں کی اُن کی سرجری اگلےہی دن ہو جائے۔ لیکن، ڈاکٹرز نے اُنھیں چار دن بعد کی تاریخ دی۔ اور سرجری کے بعد جب ان کی کیمو تھراپی ہوئی ، جو کے شاید اس علاج کا سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے ، تو انھوں نے اپنے آپ کو بہت مضبوط رکھااور بجائے اس کو ایک علاج سمجھنے کے انھوں نے اسے اپنے لیے ایک چیلنج سمجھا۔
وہ ناصرف دعا کرتیں اور اللہ سے مدد مانگتیں تھیں، بلکہ اپنی کیمو تھراپی کے دن کو ایک خاص دن کے طور پر مناتی تھیں، نئے کپڑے پہنتیں اور مکمل اعتماد اور امید سے جاتیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اِس طرِز عمل نے اُن کے اند ر ایک ایسی طاقت پیدا کی جِس نے اُنھیں اِس بیماری کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
دوسری چیز ، جس کے بارے میں راحت نے نہایت زور دے کر بات کی وہ ہے آپ کے ارد گرد موجود لوگوں کی سپورٹ، کہ آپ کے خاندان والے آپ کے ساتھ کیسے کھڑے ہوتے ہیں۔ کیونکہ، اِس خطرناک مرض کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ آپ کو چاہنے والے موجود ہیں ، جنھیں آپ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ، خاندان والوں کی طرف سے جذباتی مدد بہت ضروری ہے، خاص طور پر مردوں کی طرف سے ۔
راحت کا کہنا ہے کہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ شادی شدہ خواتین کےشوہروں کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ اِس صورتحال میں کیا کریں، کیسے اپنی بیویوں سے پیش آئیں۔ کیونکہ اس کا علاج طویل اور کٹھن ہوتا ہے ۔ اکثر مرد اپنی بیویوں سے دور ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ، یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بیوی کو اپنے خاوند کی ضرورت پڑتی ہے اور اُن کی طرف سے کہا جانے والا ایک ایک لفظ ، اور اُن کی طرف سے کیا جانے والا ایک ایک عمل بیوی کی صحت پر اچھے اور برے طریقے سے اثر انداز ہو سکتا ہے۔
اُنھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب اُن کی سرجری ہو رہی تھی تو اُن کا بلڈ پریشر بار بار اوپر نیچے جا رہا تھا اور ڈاکٹرز پریشان تھے کہ اسے کیسے کنٹرول کریں۔ لیکن، اُسی دن جب اُن کی اپنے خاوند سےفون پر بات ہوئی ( اُس وقت وہ ملک سے باہر تھے ) اور انھوں نے صرف اتنا کہا کہ میں آرہا ہوں، تو اُن کا بلڈ پریشر نارمل ہوگیا اور ڈاکٹرز نے اُن سے کہا کہ اگر انھیں پتا ہوتا تو وہ پہلے ہی کہتے کہ آپ اپنے خاوند سےبات کر لیں ، ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت ہی نا پڑتی۔
اُن کا کہنا تھا کہ علاج کے ساتھ ساتھ یہ تمام چیزیں نہایت اہمیت کی حامل تھیں کہ انھیں اپنے آس پاس موجود لوگوں سے کتنی اخلاقی اور جذباتی مدد ملی۔ اور اِسی چیز کی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اُنھوں نے اِس بارے میں بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُنھوں نے اپنے تجربے کو دوسروں سے بانٹنے کا فیصلہ کیا اور اپنی بیماری اور علاج کو چھپایا نہیں بلکہ کھل کر اِس کے بارے میں بات کی۔ اور اِس تاثر کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بیماری کو چھپانا بہتر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں اِس طرح کی معاشرتی پابندیاں ہیں اور دقیانوسی باتیں موجود ہیں جِن کی وجہ سے لوگ اپنی بیماری کو چھپانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اور خاص طور پر بریسٹ کینسر لے کر لوگ یہ باتیں کرتےہیں کہ اب تو بچنا ناممکن ہے، اس کو چھپا لو، کسی کو نا بتاؤ۔ بریسٹ کینسر ہو گیا تو سسرال والے کیا کہیں گے؟ خاوند طلاق دے دے گا۔ بیٹی کی شادی نہیں ہو گی کہ ماں کو ہوا ہے تو بیٹی کو بھی ہو سکتا ہے۔
راحت کا کہنا تھا کہ ایسی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں اِن کے بارے میں معلومات عام کریں اور اِس طرح کے رد عمل کی حوصلہ شکنی کریں، کیونکہ یہ بیماریاں اب قابل علاج ہیں اور عام بھی۔
اُنھوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے بیماری کے حوالے سے اپنی یاداشت لکھی۔ اپنے ہر تجربے کو دوسروں سے بانٹنے کی کوشش کی اور اِس میں کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
اُن کا کہنا ہے کہ اِس بیماری کو شکست دینے والےلوگوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسروں کو اِس کے بارے میں بتائیں۔ اُنھیں بتائیں کہ اِس بیماری کو شکست دینا مشکل نہیں۔ کیونکہ، اُن کا کہنا ہے کہ اُن کا اپنا کینسر نہایت بگڑ چکا تھا جب اُنھیں پتا چلا۔ لیکن، انھوں اِس کا مقابلہ کیا اور آج وہ بلکل صحت مند ہیں اور کسی بھی قسم کی دوائیں نہیں لے رہیں۔ لیکن، ہر چھے مہینے کے بعد اپنا معائنہ ضرور کرواتی ہیں۔
شوکت خانم کینسر ہاسپٹل میں اپنے علاج کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ وہاں علاج معالجے کی دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی موجود ہے ، یہی وجہ تھی کہ اُنھوں نے بجائے امریکہ یا کسی اور ملک میں علاج کروانے کے پاکستان میں ہی اپنا علاج کروانا مناسب سمجھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُنھیں یہ دیکھ کر بھی خوشی ہوئی کہ کیسے شوکت خانم کینسر ہسپتال غریب اور مستحق مریضوں کا علاج مفت کرتا ہے۔ اُن کا اپنا تجربہ یہ رہا کہ وہ خود تو پیسے دے کر اپنا علاج کروا رہی تھیں۔ لیکن، اُن کےساتھ کے بیڈ پر موجود مریض کا علاج مفت میں ہو رہا تھا جنھیں وہ تمام سہولیات میسر تھیں جو اُنھیں میسر تھیں۔ اُن کا علاج بھی بلکل ایسے کیا گیا جیسے کسی بھی مریض کا جو اپنے علا ج کا خرچ برداشت کر سکتے تھے ۔
آخر میں، ا ُنھوں نے اُن تمام مریضوں کو جو بریسٹ کینسر کے علاج سے گزر رہے ہیں ، یہ پیغام دیا کہ بریسٹ کینسر کو شکست دینا ممکن ہے ۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ آپ مکمل اعتماد سے اِس کا مقابلہ کریں، مثبت رویہ اور سوچ رکھیں اور ہردن کا آغاز یہ سوچ کر کریں کہ یہ آپ کی تندرستی کی طرف ایک اور قدم ہے۔ ہر دن بھرپور طریقے سے جئیں اور اپنا ہدف اور مقصد بنا لیں کہ آپ نے اس جنگ میں سر خرو ہونا ہے۔، آپ نے بریسٹ کینسر کے خلاف یہ مقابلہ جیتنا ہے۔، آپ نے صحت یاب ہونا ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر خواتین چھاتی کے سرطان کی بیماری اور علاج کےبارے میں معلومات کے فقدان کا شکار ہیں۔ اِس لیے، زیادہ تر واقعات میں مریضوں میں بیماری کی تشخیص ایسےمرحلے پر ہوتی ہے جب اِس مرض کا علاج ممکن نہیں ہوتا۔ جبکہ، معاشرتی اور سماجی دباؤ کے پیش ِنظر اِس بیماری کو چھپایا بھی جاتا ہے، جس کے باعث اس کا شکار ہونے والی خواتین کو علاج میں دشواری بھی پیش آتی ہے۔
آج ہم آپ کو ملوا رہے ہیں ایک ایسی خاتون سے جنھوں نے ان تمام دشواریوں کے باوجود پاکستان میں رہ کر اس بیماری کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، اور ناصرف بریسٹ کینسر کو شکست دی بلکہ ساتھ میں اِس بیماری کےبارے میں ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے منفی نظریات کو بھی شکست دی۔
راحت حسنات پیشے کے لحاظ سے ایک کالج پروفیسر ہیں۔ اُنھیں اپنی بیماری کےبارے میں اُس وقت پتا چلا جب وہ اپنی ایک کولیگ کے ساتھ شوکت خانم کینسر ہاسپٹل گئیں، اور ان کے کہنے پر اپنے ٹیسٹ کروائے۔ اگرچہ راحت کو کسی بھی قسم کی بیماری کے اثرات نہیں تھے، وہ مکمل طور پر تندرست اور ایک نہایت مصروف زندگی گزارنے والی خاتون تھیں۔ لیکن، اُن کے ٹیسٹ کی رپورٹ نے انھیں چونکا دیا۔
رپورٹس کے مطابق، اُنھیں بریسٹ کینسر تھا اور فوری علاج کی ضرورت تھی۔ راحت کا کہنا ہے کہ جب اُنھیں پتا چلا تو وہ ڈر گئیں۔ اُنھیں اپنے بچوں اور خاوند کا خیال آیا اور اُن کی پوری زندگی اُن کے سامنے ایک فلم کی طرح چلنے لگی۔یہ بات ہے آج سے 10 سال پہلے کی ، اور پاکستان جیسے ترقی پذیر اور صحت کی سہولیات کے لحاظ سے ایک پسماندہ ملک میں کینسر یا سرطان کو موت کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ لیکن، اُنھوں نے سب سے پہلے اپنے آپ کو سنبھالا، ڈاکٹر کی بات کو سنا، سمجھا اور اپنے گھر والوں سے بات کی ۔ امریکہ میں موجود اپنے بھائی سے مشورہ کیا اور آخر کار اس بات پر سب متفق ہوئے کہ علاج امریکہ کی بجائے پاکستان میں ہی کروایا جائے۔
راحت کا کہنا ہے کہ سب سے پہلی چیز جو اِس قسم کی بیماری کے علاج میں مددگار ثابت ہوتی ہے وہ ہے آپ کا خود اس بات کو تسلیم کرنا کے آپ کو یہ بیماری ہے اور آپ نے اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہ مریض کے اپنے اوپر منحصر ہوتا ہے وہ کیا سوچتا ہے اور کیسے اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرتا ہے۔
اپنے بارےمیں بتاتے ہوئے اُنھوں نےکہا کہ جب ڈاکٹر نے اُنھیں بتایا کہ اُنھیں سرجری کی ضرورت ہے تو وہ فوراً تیار ہو گئیں اور کوئی وقت ضائع نہیں کیا۔ بلکہ ، وہ چاہتی تھیں کی اُن کی سرجری اگلےہی دن ہو جائے۔ لیکن، ڈاکٹرز نے اُنھیں چار دن بعد کی تاریخ دی۔ اور سرجری کے بعد جب ان کی کیمو تھراپی ہوئی ، جو کے شاید اس علاج کا سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے ، تو انھوں نے اپنے آپ کو بہت مضبوط رکھااور بجائے اس کو ایک علاج سمجھنے کے انھوں نے اسے اپنے لیے ایک چیلنج سمجھا۔
وہ ناصرف دعا کرتیں اور اللہ سے مدد مانگتیں تھیں، بلکہ اپنی کیمو تھراپی کے دن کو ایک خاص دن کے طور پر مناتی تھیں، نئے کپڑے پہنتیں اور مکمل اعتماد اور امید سے جاتیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اِس طرِز عمل نے اُن کے اند ر ایک ایسی طاقت پیدا کی جِس نے اُنھیں اِس بیماری کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
دوسری چیز ، جس کے بارے میں راحت نے نہایت زور دے کر بات کی وہ ہے آپ کے ارد گرد موجود لوگوں کی سپورٹ، کہ آپ کے خاندان والے آپ کے ساتھ کیسے کھڑے ہوتے ہیں۔ کیونکہ، اِس خطرناک مرض کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ آپ کو چاہنے والے موجود ہیں ، جنھیں آپ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ، خاندان والوں کی طرف سے جذباتی مدد بہت ضروری ہے، خاص طور پر مردوں کی طرف سے ۔
راحت کا کہنا ہے کہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ شادی شدہ خواتین کےشوہروں کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ اِس صورتحال میں کیا کریں، کیسے اپنی بیویوں سے پیش آئیں۔ کیونکہ اس کا علاج طویل اور کٹھن ہوتا ہے ۔ اکثر مرد اپنی بیویوں سے دور ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ، یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بیوی کو اپنے خاوند کی ضرورت پڑتی ہے اور اُن کی طرف سے کہا جانے والا ایک ایک لفظ ، اور اُن کی طرف سے کیا جانے والا ایک ایک عمل بیوی کی صحت پر اچھے اور برے طریقے سے اثر انداز ہو سکتا ہے۔
اُنھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب اُن کی سرجری ہو رہی تھی تو اُن کا بلڈ پریشر بار بار اوپر نیچے جا رہا تھا اور ڈاکٹرز پریشان تھے کہ اسے کیسے کنٹرول کریں۔ لیکن، اُسی دن جب اُن کی اپنے خاوند سےفون پر بات ہوئی ( اُس وقت وہ ملک سے باہر تھے ) اور انھوں نے صرف اتنا کہا کہ میں آرہا ہوں، تو اُن کا بلڈ پریشر نارمل ہوگیا اور ڈاکٹرز نے اُن سے کہا کہ اگر انھیں پتا ہوتا تو وہ پہلے ہی کہتے کہ آپ اپنے خاوند سےبات کر لیں ، ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت ہی نا پڑتی۔
اُن کا کہنا تھا کہ علاج کے ساتھ ساتھ یہ تمام چیزیں نہایت اہمیت کی حامل تھیں کہ انھیں اپنے آس پاس موجود لوگوں سے کتنی اخلاقی اور جذباتی مدد ملی۔ اور اِسی چیز کی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اُنھوں نے اِس بارے میں بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُنھوں نے اپنے تجربے کو دوسروں سے بانٹنے کا فیصلہ کیا اور اپنی بیماری اور علاج کو چھپایا نہیں بلکہ کھل کر اِس کے بارے میں بات کی۔ اور اِس تاثر کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بیماری کو چھپانا بہتر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں اِس طرح کی معاشرتی پابندیاں ہیں اور دقیانوسی باتیں موجود ہیں جِن کی وجہ سے لوگ اپنی بیماری کو چھپانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اور خاص طور پر بریسٹ کینسر لے کر لوگ یہ باتیں کرتےہیں کہ اب تو بچنا ناممکن ہے، اس کو چھپا لو، کسی کو نا بتاؤ۔ بریسٹ کینسر ہو گیا تو سسرال والے کیا کہیں گے؟ خاوند طلاق دے دے گا۔ بیٹی کی شادی نہیں ہو گی کہ ماں کو ہوا ہے تو بیٹی کو بھی ہو سکتا ہے۔
راحت کا کہنا تھا کہ ایسی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں اِن کے بارے میں معلومات عام کریں اور اِس طرح کے رد عمل کی حوصلہ شکنی کریں، کیونکہ یہ بیماریاں اب قابل علاج ہیں اور عام بھی۔
اُنھوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے بیماری کے حوالے سے اپنی یاداشت لکھی۔ اپنے ہر تجربے کو دوسروں سے بانٹنے کی کوشش کی اور اِس میں کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
اُن کا کہنا ہے کہ اِس بیماری کو شکست دینے والےلوگوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسروں کو اِس کے بارے میں بتائیں۔ اُنھیں بتائیں کہ اِس بیماری کو شکست دینا مشکل نہیں۔ کیونکہ، اُن کا کہنا ہے کہ اُن کا اپنا کینسر نہایت بگڑ چکا تھا جب اُنھیں پتا چلا۔ لیکن، انھوں اِس کا مقابلہ کیا اور آج وہ بلکل صحت مند ہیں اور کسی بھی قسم کی دوائیں نہیں لے رہیں۔ لیکن، ہر چھے مہینے کے بعد اپنا معائنہ ضرور کرواتی ہیں۔
شوکت خانم کینسر ہاسپٹل میں اپنے علاج کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ وہاں علاج معالجے کی دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی موجود ہے ، یہی وجہ تھی کہ اُنھوں نے بجائے امریکہ یا کسی اور ملک میں علاج کروانے کے پاکستان میں ہی اپنا علاج کروانا مناسب سمجھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُنھیں یہ دیکھ کر بھی خوشی ہوئی کہ کیسے شوکت خانم کینسر ہسپتال غریب اور مستحق مریضوں کا علاج مفت کرتا ہے۔ اُن کا اپنا تجربہ یہ رہا کہ وہ خود تو پیسے دے کر اپنا علاج کروا رہی تھیں۔ لیکن، اُن کےساتھ کے بیڈ پر موجود مریض کا علاج مفت میں ہو رہا تھا جنھیں وہ تمام سہولیات میسر تھیں جو اُنھیں میسر تھیں۔ اُن کا علاج بھی بلکل ایسے کیا گیا جیسے کسی بھی مریض کا جو اپنے علا ج کا خرچ برداشت کر سکتے تھے ۔
آخر میں، ا ُنھوں نے اُن تمام مریضوں کو جو بریسٹ کینسر کے علاج سے گزر رہے ہیں ، یہ پیغام دیا کہ بریسٹ کینسر کو شکست دینا ممکن ہے ۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ آپ مکمل اعتماد سے اِس کا مقابلہ کریں، مثبت رویہ اور سوچ رکھیں اور ہردن کا آغاز یہ سوچ کر کریں کہ یہ آپ کی تندرستی کی طرف ایک اور قدم ہے۔ ہر دن بھرپور طریقے سے جئیں اور اپنا ہدف اور مقصد بنا لیں کہ آپ نے اس جنگ میں سر خرو ہونا ہے۔، آپ نے بریسٹ کینسر کے خلاف یہ مقابلہ جیتنا ہے۔، آپ نے صحت یاب ہونا ہے۔