پاکستان میں موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے میں چند ہفتے رہ گئے ہیں جس کے باعث اب ملک میں نئے انتخابات اور نگراں سیٹ اپ کا معاملہ موضوعِ بحث ہے۔
یہ بحث اُس وقت مزید زور پکڑ گئی جب چند روز قبل وزیراعظم شہباز شریف نے تواتر سے کہا کہ وہ مدت پوری ہونے سے پہلے چلے جائیں گے اور نگراں حکومت آئے گی۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی کی مدت آئندہ ماہ 12 اگست کی رات 12 بجے ختم ہو جائے گی جب کہ عام انتخابات اکتوبر یا نومبر میں کرانے کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق پی ڈی ایم کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے آٹھ اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ تاہم وفاقی وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب نے اِس خبر کی تصدیق نہیں کی۔
'صورتِ حال اب بھی غیر یقینی ہے'
حکومتی اعلانات کے باجود سیاسی حلقے سمجھتے ہیں کہ انتخابات کے حوالے سے تاحال غیر یقینی کی سی صورتِ حال ہے۔
سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے دستور میں صاف اور واضح لکھا ہے کہ حکومت کی مدت پوری ہونے پر 90 روز کے اندر انتخابات کرائے جائیں اگر ایسا نہیں ہوتا تو ملک میں سیاسی اور معاشی مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں۔
سینئر صحافی، تجزیہ کار اور کالم نویس سہیل وڑائچ کے خیال میں پی ڈی ایم حکومت مقررہ وقت پر حکومت چھوڑ دے گی کیوں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد اب وہ ملک کو درست پر ڈالنے کا بیانیہ اپنا رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ شاید اسٹیبلشمنٹ بھی موجودہ حکومت کی مدت میں مزید توسیع کے حق میں نہیں تھی جب کہ عدلیہ سے بھی حکومت کے لیے کوئی ریلیف ملنا مشکل تھا۔ اسی لیے حکومت مقررہ مدت پر ہی جا رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ انتخابات کب ہوں گے اِس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا، یوں لگتا ہے کہ نگراں حکومت کی مدت طویل ہو جائے گی۔
اُن کے بقول پی ٹی آئی کا ووٹ بینک برقرار ہے اور جب تک پی ٹی آئی کا توڑ نہیں ہوتا نہ اسٹیبلشمنٹ نہ پی ڈی ایم دونوں کو یہ گوارہ نہیں کہ پی ٹی آئی زیادہ سیٹیں لے کر آ جائے۔
تجزیہ کار،کالم نویس اور سینئر صحافی افتخار احمد کے مطابق آئین کی ایک شق میں سینیٹ کے انتخابات کا کہا گیا ہے اور وہ اُس وقت تک نہیں ہوں گے جب تک قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں نہیں ہوں گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ عام انتخابات کی صورت میں جو بھی مینڈیٹ ہو گا ہو سکتا ہے کہ اُسے ایک سیاسی جماعت تسلیم نہ کرے جس سے ملک کے مسائل بڑھ جائیں گے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ آئین کے مطابق تو انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہی ہونے چاہیئں لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ انتخابات دو ہی صورتوں میں تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں۔ کوئی آفت آ جائے یا جنگ کا ماحول ہو۔
مردم شماری اور عام انتخابات
ملک میں انتخابات کی باتوں کے ساتھ ہی نئی مردم شماری کے نتائج، اُن کی بنیاد پر حلقہ بندیاں اور انتخابات کی باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے آئندہ انتخابات 2018 کی مردم شماری کے مطابق ہوں گے۔
نجی ٹی وی جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حلقوں میں اضافے یا کمی کے لیے آئینی ترمیم کرنی پڑے گی۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ تاحال نئی مردم شماری کے نتائج نہیں آئے ہیں، اگر یہ نتائج آ بھی جائیں تو حلقے 2018 کی مردم شماری کے مطابق ہی رہیں گے۔
حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے پرانی مردم شماری پر انتخابات قبول نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
سہیل وڑائچ کے بقول ستمبر کے وسط میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریٹائر ہونا ہے۔ اُن کے ہوتے ہوئے انتخابات نہیں ہو سکیں گے۔ اُن کی رائے میں فوری انتخابات کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی تیار نہیں ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ نواز شریف کی پاکستان واپسی اکتوبر میں متوقع ہے جس کے بعد وہ انتخابی مہم چلائیں گے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ہوتے ہوئے نواز شریف کبھی بھی واپس نہیں آئیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
نگران سیٹ اپ کیسا ہو سکتا ہے؟
مظہر عباس کہتے ہیں کہ آئین کے مطابق نگراں حکومت کے اختیارات بہت ہی محدود ہوتے ہیں۔ وہ کوئی بڑے فیصلے کر سکتی ہے نہ ہی کوئی حکمتِ عملی بنا سکتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت میں اگر کوئی معیشت دان بھی شامل ہو جائیں تو آئین کے مطابق اُن کے پاس ڈھائی سے تین ماہ کا وقت ہوتا ہے جو کوئی پالیسی نہیں بنا سکتے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ نگران حکومت کا کام صرف اور صرف ملک میں عام انتخابات کرانا ہوتا ہے۔ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس میں نگراں حکومت کی مدت تین ماہ سے زیادہ بڑھا دی گئی ہو۔
تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے خیال میں پاکستان کا آئندہ نگران سیٹ اپ معیشت کو ترجیح دے گا جس کی وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی موجودہ ڈیل کو آگے بڑھانا ہے۔
نئی سیاسی جماعتیں اور انتخابات
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں سابق وزیرِ اعلٰی پرویز خٹک کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے سابق اراکینِ اسمبلی نے اپنی ایک الگ سیاسی جماعت بنائی ہے۔ اِس سے قبل صوبہ پنجاب میں بھی پی ٹی آئی سے علٰیحدگی اختیار کرنے والے استحکام پاکستان پارٹی کے نام سے سامنے آ چکے ہیں۔
تجزیہ کار افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ ایسی جماعتوں کے مستقبل کا اُس وقت پتا چلے گا جب انتخابات کا اعلان کر دیا جائے گا۔
سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں یہ تمام الیکٹیبلز کی جماعتیں ہیں جن کے پاس ابھی ووٹ بینک ہے نہ کوئی بیانیہ ہے۔ دونوں جماعتوں کے پاس الیکٹیبلز ہیں اور اِن سے فرق پڑتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی میں قومی اسمبلی کے 60 الیکٹیبلز شامل ہوئے تھے جس سے پورا نقشہ بدل گیا تھا۔
عمران خان اور آئندہ انتخابات
کالم نویس سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے لیے ابھی بہت سی مشکلات ہیں، لیکن اُنہیں اپنی پالیسی کو تبدیل کرنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں یا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ وہ اپنے معاملات درست کریں۔
اُن کا کہنا تھا کہ کسی کے ساتھ تو وہ اپنے معاملات سیدھے کریں۔ سب سے کٹ کے اور تنہائی اختیار کر کے راستہ نہیں ملتا۔
اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کو کوئی راستہ نکالنا چاہیے۔ شاہ محمود قریشی جیسے لوگ اُن کے پاس موجود ہیں جو یہ کام کر سکتے ہیں۔ عمران خان کو آہستہ آہستہ ایسےلوگ چھوڑ گئے ہیں جو مصالحت پسند تھے۔
مظہر عباس کی رائے میں عمران خان کے لیے موجوہ اور آنے والا وقت سیاسی اعتبار سے مشکل ہے اور مزید مشکل ہو سکتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات میں نہیں ہوں گے جس کی کوئی بھی شکل ہو سکتی ہے۔
افتخار احمد کی رائے میں عام انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف تو رہے گی لیکن سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کون کرے گا؟
اُن کا کہنا تھا کہ مستقبل کے عدالتی فیصلوں پر تو قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی، اگر عمران خان کسی فیصلے کے نتیجے میں نااہل ہو گئے تو اُنہیں کسی نہ کسی پر تو اعتماد کرنا ہو گا۔