امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں اس وقت 1200 افراد کرونا میں مبتلا ہیں اور 22 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ قومی اور مقامی صحت کے حکام کو خدشہ ہے کہ بہت جلد حالات بدترین رخ اختیار کرلیں گے۔
واشنگٹن میں موسم گرم ہوتا جا رہا ہے اور مقامی آبادی مشکل سے خود کو باہر نکلنے سے روک پا رہی ہے۔ سماجی فاصلے کے اصولوں کی رو گردانی جاری ہے۔
ان حالات میں صحت کے ماہرین پیش گوئی کر رہے ہیں کہ یہ علاقہ کرونا وائرس کی بد ترین زد میں آنے والا دوسرا شہر بن سکتا ہے۔
ڈی سی کی میئر میریل باوزر نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ مختلف ماڈلز یہ دکھا رہے ہیں کہ مئی یا جون میں یہاں کرونا وائرس اپنے عروج پر ہوگا اور سال کے آخر تک سات میں سے ایک شہری اس مرض کے چنگل میں پھنس چکا ہوگا۔
میئر نے کہا کہ اگر سماجی فاصلے پر عمل درآمد نہ ہوا تو پھر زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں مبتلا ہوں گے اور ہلاکتیں بھی بڑھ سکتی ہیں۔ ہمیں صورت حال پر سخت تشویش ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائٹ ہاوس میں کرونا وائرس ٹاسک فورس کی کو آرڈینیٹر ڈاکٹر ڈیبورا برکس نے بھی بارہا کہا ہے کہ واشنگٹن ڈی سی خطرے کی زد میں ہے۔ اور اگر ایسا ہوا تو شہر کے موجودہ صحت کے نظام پر بہت زیادہ بوجھ پڑ جائے گا۔
انہوں نے ہفتے کے روز کہا کہ اس سلسلے میں عوام کا تعاون بے حد ضروری ہے۔
واشنگٹن میں اس مرض پر صرف اسی صورت میں قابو پایا جا سکتا ہے کہ یہاں کے شہری سماجی فاصلے کے اصولوں کی پاسداری کریں۔
اختتام ہفتہ میئر باوزر نے ایک مچھلی بازار کو اچانک بند کرنے کا حکم دیا تھا یوں کہ وہاں لوگوں کی بھیڑ جمع ہو رہی تھی۔
شہر میں نافذ قوانین کے تحت گھر سے بلا ضرورت باہر نکلنے والوں کو 90 دن کی قید ہو سکتی ہے یا پانچ ہزار ڈالر تک کا جرمانہ۔ ابھی تک کسی کو یہ سزا نہیں دی گئی۔ میئر کا کہنا ہے وہ نہیں چاہتیں کہ پولس یہ اختیار استعمال کرے۔