کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں ابھی تک اضافہ ہو رہا ہے۔ جمعرات کی سہ پہر تک دنیا بھر میں اس وائرس کے مریضوں کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہو چکی تھی اور 51 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ امریکہ میں 2 لاکھ 26 ہزار سے زیادہ افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 5 ہزار 3 سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس وائرس کے پھیلنے کے بعد اس کی وجوہات، بچاؤ اور علاج پر تحقیق جاری ہے۔
اگرچہ، اس دوران کسی ایک دوا کے مؤثر ہونے کی کوئی شہادت سامنے نہیں آئی ہے تاہم کچھ طبی سامان ایسا ہے جو اس وائرس کے ساتھ ہی انسانی زندگی کے لئے ضروری سمجھا جانے لگا ہے۔
اس میں سرِ فہرست تو ماسک ہیں۔ دوسرے نمبر پر سینیٹائزر اور وینٹی لیٹر ہیں۔ یہ چیزیں ہمیشہ سے ہسپتالوں کے استعمال میں رہی ہیں مگر اب ان کا استعمال عام لوگوں کیلئے بھی ضروری ہو گیا ہے۔ استعمال بڑھا تو اس سامان کی قلت بھی سامنے آنے لگی ہے۔
ماسک ہوں یا وینٹی لیٹر یا صحت کے عملے کا حفاظتی سامان یا پی پی ای، سب اس وبا سے متاثر ہونے والے لوگوں کی تعداد کے مقابلے میں کم نظر آتے ہیں۔ خود امریکہ میں اس بارے میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے تو ان ممالک کا کیا جہاں وسائل پہلے ہی کم ہیں۔
پاکستان ان ممالک میں شال ہے جہاں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد کے بارے میں فی الحال اتنی تشویش نہیں پائی جاتی، مگر ملکی نظامِ صحت کو اس وبا کے مقابلے کیلئے کس حد تک تیار کیا جا رہا ہے؟
ڈاکٹر احسن وقار خان، شوکت خانم ہسپتال میں کریٹیکل کئیر اور اینستھیزیا کے کنسلٹنٹ ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں کرونا وائرس کے مریضوں کی اعلان کردہ تعداد درست ہے یا ٹیسٹ ہی کم کئے گئے ہیں، انھوں نے بتایا کہ ’’یہ ممکن ہے کہ سب کیسز کا پتہ نہ لگایا جا سکا ہو مگر مریضوں کی تصدیق کی شرح باقی دنیا کے مطابق ہے۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ اگر ہمارے ہاں دس میں سے نو لوگ پازیٹو ہوتے تو کہا جا سکتا تھا کہ ٹیسٹنگ اتنی کم ہو رہی ہے کہ ہم سب مریضوں کا پتہ نہیں لگا پا رہے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔
پاکستان میں وینٹیلیٹرز کی صورتِ حال کے بارے میں ڈاکٹر احسن وقار کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں تین ہزار وینٹی لیٹر موجود ہیں۔ اگرچہ یہ تعداد آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان ان ممالک میں سے ہوا جہاں کرونا کی وبا کی شدت نہ ہوئی تو یہ خطرہ نہیں ہوگا کہ یہ تیزی سے ختم ہو گئے۔وینٹی لیٹر کرونا وائرس کے مریضوں کیلئے زندگی اور موت کے درمیان امید کا واسطہ بن گئے ہیں۔ امریکہ میں ان کی ضرورت اتنی زیادہ ہے کہ کاریں بنانے والی دو بڑی کمپنیاں جنرل موٹرز اور فورڈ بھی تیزی سے وینٹی لیٹر بنا رہی ہیں۔ تاہم، فورڈ کا کہنا ہے کہ اس کے بنائے ہوئے وینٹی لیٹر اپریل کے آخر میں دستاب ہو سکیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ کرونا وائرس سے پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں اس لئے وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑتی ہے؛ مگر ایسا سو میں سے پانچ مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور ان پانچ فیصد میں سے جو اعداد و شمار اس وقت دستیاب ہیں، ان کے مطابق، سو میں سے 25 سے 30 مریض موت کا شکار ہو سکتے ہیں۔
تاہم، انھوں نے بتایا کہ ابھی یہ ڈیٹا مکمل نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر احسن وقار خان نے کہا کہ عام حالات میں وینٹی لیٹر پر جانے والے سو میں سے 75 مریض شفایاب ہو جاتے ہیں مگر کرونا وائرس کے مریضوں کیلئے یہ نہیں کہا جا سکتا۔ اگرچہ کوئی ایسے اعداد و شمار نہیں ہیں کہ قطعی طور پر کچھ کہا جا سکے، مگر 70 سے 75 فیصد تک مریض صحتیاب نہیں ہوتے۔
ماسک بھی کرونا وائرس سے بچاؤ کا ایک ذریعہ ہے اور آسان بھی مگر امریکہ اور پاکستان سمیت بہت سے ملکوں میں عام لوگوں کے بجائے صرف مریضوں کو ماسک پہننے کی ہدایت کی گئی ہے۔ لیکن جلد ہی یہ حکم سب لوگوں کیلئے بھی آجائے گا، کیونکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یہ وائرس سانس لینے اور بات کرنے سے بھی پھیل رہا ہے۔