لیبارٹری میں کرونا وائرس کی تیاری کا دعویٰ سازشی نظریہ ہے: چین

  • قمر عباس جعفری

ووہان میں اگرچہ روزمرہ زندگی کی سرگرمیاں بحال ہو چکی ہیں، لیکن پھر بھی وائرس سے احتیاط کی جا رہی ہے۔ باربر بال کاٹنے کے دوران خصوصی ماسک استعمال کرتے ہیں۔ 12 اپریل 2020

کرونا وائرس جانوروں سے انسانوں کو لگا یا چین کی لیبارٹری میں اسے تیار کیا گیا، یا کہیں اور اس کا تجربہ کیا گیا؟ اس بارے میں چین اور امریکہ کے درمیان الزامات کا تبادلہ ہو رہا ہے۔

چین کے شہر ووہان میں قائم نیشنل بائیو سیفٹی لیب کے ڈائریکٹر یوان زیمنگ نے شدت سے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا منبع ان کی لیبارٹری ہو سکتی ہے۔ انہوں نے اسے ناممکن اور سازشی نظریہ قرار دیا ہے۔

چین کے انگریزی زبان کے نشریاتی ادارے 'سی جی ٹی این' کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے چینی حکومت اور کمیونسٹ پارٹی کے عہدیداروں کے مؤقف کی مطابقت میں موؑقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وائرس کے انسٹی ٹیوٹ آف وائرلوجی میں یعنی جرثوموں پر کام کرنے والے ادارے، خاص طور پر اس کی 'پی فور' لیبارٹری سے نکلا ہو، جو خطرناک وائرسوں پر کام کرتی ہے۔

اپنے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ جہاں تک وہ جرثوموں کے بارے میں جانتے ہیں، یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ اس وائرس کو مصنوعی طور پر تیار کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہا کہ اس کے علاوہ بعض سائنس دان باور کرتے ہیں کہ کسی وائرس کو مصنوعی طور پر کیمیاوی طریقے سے تیار کرنے کے لیے غیر معمولی ذہانت اور شدید محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو عام انسانوں اور موجودہ انسانی معاشرے کی ذہانت سے کہیں زیادہ ہونی چاہئے۔ چنانچہ میں نہیں سمجھتا کہ اس وقت ہم انسانوں میں ایسے وائرس کو مصنوعی طور پر کیمیاوی طریقے سے تیار کرنے کی اہلیت موجود بھی ہے۔

اس بارے میں جب متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر ساجد چودھری سے سوال کیا گیا کہ میڈیکل سائنس کمیونٹی اس بارے میں کیا کہتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اب تک ایسا کوئی ثبوت نہیں مل سکا جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ اسے مصنوعی طور پر تیار کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی ایک ابتدائی قسم کا پہلے بھی سامنا ہو چکا ہے مگر یہ کرونا بہت زیادہ خطرناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ جانوروں میں یہ وائرس پایا جاتا ہے اور پہلے بھی یہ مرس کی صورت میں اونٹوں وغیرہ میں اور سارس کی صورت میں پرندوں میں پھیل چکا ہے۔

انہوں نے کیا کہ اس کے علاوہ ہیومن کرونا فیملی بھی ہوتی اور جب تک کوئی بات حتمی طور پر ثابت نہ ہو جائے، قطعی طور ہر کچھ کہنا مشکل ہے۔ خیال یہ ہے کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں آیا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔

خیال رہے کہ چین پر اس بارے میں خاصی نکتہ چینی ہوتی رہی ہے کہ اس نے اپنے ہاں اس وبا سے نمٹتے ہوئے حقائق کو چھپایا اور شفافیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔

ووہان میں جو متاثرین کی تعداد بتائی گئی، وہ بھی شروع ہی سے مشکوک تھی۔ اور وہاں کی حکومت بار بار اعداد و شمار تبدیل کرتی رہی اور گزشتہ ہفتے ووہان کے حکام نے ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں غلطی کا اعتراف کیا اور اب جو نئی تعداد بتائی گئی ہے وہ پہلے کی گنتی سے پچاس فیصد زیادہ ہے۔

امریکہ اب یہ تحقیقات کر رہا ہے کہ کیا یہ وائرس ووہان کے انسٹی ٹیوت آف وائرولوجی سے شروع ہوا تھا۔

صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر یہ ثابت ہوا کہ یہ غلطی تھی تو کوئی بات نہیں لیکن اگر جان بوجھ کر یہ کیا گیا ہے تو اس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔