پوری دنیا میں کرونا وائرس نے اگر ایک طرف بالغوں پر جسمانی سطح پر یلغار کی ہے تو دوسری طرف بچوں کے ذہنوں پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
یونیسیف نے اپیل کی ہے کہ بچوں کو اس وبا کے مضر اثرات سے بچایا جائے۔
جینوا سے وائس آف امریکہ کی نامہ نگار لیزا شلائین نے خبر دی ہے کہ اقوام متحدہ کے چلڈرنز فنڈ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں اس بات کو بھی اہمیت دی جانی چاہیے کہ بچے بھی اس وبا سے متاثر ہو رہے ہیں۔
ادارے نے کہا ہے کہ پوری دنیا میں بچے اس ماحول میں شدید ذہنی دباو کا شکار ہو رہے ہیں اور ان کے اثرات ان کی آئیندہ زندگی میں ان کا پیچھا کرتے رہیں گے۔
یونیسیف کے 'گلوبل ان سائٹ' شعبے سے متعلق لارنس چانڈے نے اپنی اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ کرونا کے پھیلاو کو روکنے کی کوشش ایک طرف بہت اہم، تو دوسری طرف ہمیں اپنی اگلی نسل کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی اور انہیں کرونا کے مہلک اثرات سے ممکن حد تک بچانا ہوگا۔ ممکن ہے کہ اس وبائی مرض سے بڑوں کی نسبت بچوں کو کم خطرہ ہو مگر 60 فی صد بچے ایک ایسے ماحول میں رہ رہے ہیں جہاں لاک ڈاون ہے، سکول بند ہیں اور وہ گھر سے باہر تازہ ہوا میں سانس نہیں لے سکتے۔
چانڈے لکھتے ہیں کہ ''سکولوں میں صرف تعلیم ہی نہیں ملتی، بلکہ انہیں یہاں کھانا بھی ملتا ہے۔ اب یہ سب کچھ بند ہے۔ دنیا کے ایک سو تیالیس ملکوں کے پچاس کروڑ بچے سکول لنچ سے محروم ہیں''۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سکول بند ہونے کی وجہ سے ان کی ذہنی صحت پر بہت دباو ہے، اور یہ خاندانی جھگڑوں سے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ ''یہ درست ہےکہ اس وبا سےجسمانی طور پر کم بچے شکار ہو رہے ہیں۔ لیکن ان کی ذہنی اور جسمانی صحت سے متعلق بہت ضرورتیں ادھوری چھوڑ دی گئی ہیں''۔
''انہیں ویکسین شیڈول کے مطابق دستیاب نہیں۔ مثال کے طور پر انسداد پولیو کی مہم کئی سال پیچھے چلی جائے گی۔ کم اس کم تیئس ملکوں میں خسرہ کی ویکسین نہیں دی جا رہی ہے۔ زچہ و بچہ کو مناسب طبی سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے نوزائیدہ بچوں کی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بچے کم خوراکی کا شکار ہیں۔ پھر سب سے بڑھ کر ان کی پڑھائی لکھائی معطل ہے اور کھیل کود کی سرگرمیاں موقوف''۔
یونیسیف نے عالمی سطح پر حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ کہ وہ کرونا کے خلاف یک طرفہ جنگ میں اپنے سارے وسائل نہ صرف کریں، بلکہ اس سلسلے میں وہ ایک متوازن رویہ اختیار کریں۔
ادارے نے کہا ہے کہ ''صرف کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی گنتی نہ کریں، بلکہ یہ دیکھیں کہ اگلی نسل کا مستقبل بھی دائو پر لگا ہوا ہے۔ ان بچوں کی آئندہ زندگی بھی اتنی ہی اہم ہے جتنا اس مرض کے پھیلاو کو روکنا اور لوگوں کی زندگیاں بچانا''۔