آسٹریلیا میں اب تک کرونا وائرس کے تقریباً ساڑھے چھ ہزار کیسز سامنے آئے ہیں اور 79 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
سڈنی سے وائس آف امریکہ کے نامہ نگار فل مرسر نے خبر دی ہے کہ آسٹریلیا کے تحقیق کار یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سیوریج کے پانی کو ٹیسٹ کر کے کرونا وائرس کے پھیلنے کا پیشگی اندازہ لگایا جا سکتا ہے یا نہیں۔
آسٹریلیا کی ریاست کوئنز لینڈ کے گندے پانی کے دو پلانٹس سے پانی نکال کر جب اس کا ٹیسٹ کیا گیا تو اس میں کرونا وائرس کے جینیاتی ذرات ملے ہیں۔ اسی بنیاد پر آسٹریلوی سائنس دان مزید تحقیق کر رہے ہیں۔
کوئنز لینڈکی یونی ورسٹی کے محقق پروفیسر کے ون تھامس کا خیال ہے کہ اس طرح کے تجربات سے ہمیں یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ وائرس کس طرح پھیلتا ہے اور اس کو کس طرح روکا جا سکتا ہے۔
پروفیسر تھامس کا کہنا ہے کہ دیگر روایتی تجربات کے ساتھ آلودہ پانی کا ٹیسٹ بھی کار آمد ثابت ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ اس سے ہمیں یہ معلوم ہو سکے گا کہ ابتدائی طور یہ کیسے پھیلا۔
امکانی طور پر سیوریج کے تجزیے سے حکام پہلے سے ایسے مقامات کی نشان دہی کر لیں گے جہاں کرونا کے پھوٹنے کا امکان ہو سکتا ہے۔
وفاقی وزیر صحت گریگ ہنٹ کا کہنا ہے سیوریج کی نگرانی کی اسکیم حوصلہ افزا ہے اور اس سے حاصل کردہ نتائج سے ہم خاصا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
سیوریج کے پانی پر جاری اس تحقیق میں کوئنز لینڈ یونی ورسٹی کے ساتھ آسٹریلیا، ہالینڈ اور امریکہ بھی تعاون کر رہے ہیں اور توقع ہے کہ آئندہ کچھ ہفتوں میں وسیع پیمانے پر یہ تحقیق شروع ہو جائے گی۔