21 ٹریلین ڈالرز سے زائد کی امریکی معیشت کو کرونا وائرس کی بریک لگنے کے بعد پٹری پر دوبارہ ڈالنا ایک دوہرا چیلنج تصور کیا جاتا ہے کہ اس میں بیک وقت وبا سے مسلسل نمٹنا اور لوگوں کا اعتماد بحال کرنا شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق تقریباً تین کروڑ امریکی جو کوویڈ 19 کے بحران میں اپنی ملازمتیں کھو چکے ہیں، انہیں روزگار کے مواقع فراہم کر کے اقتصادی ترقی کے دھارے میں واپس لانا ایک اہم ترین ترجیح ہونی چاہیے۔
لیکن کیونکہ کہ ابھی تک کرونا وائرس کی کوئی موثر دوا دریافت نہیں ہوئی، اس مقصد کے حصول اور اقتصادی ترقی کی شرح کو تیز تر کرنے کیلئے لوگوں کو اپنے آپ کو ایک نئے ماحول میں ڈھالنا ہو گا جہاں سماجی فاصلوں کی پابندی اور چہروں پر ماسک بھی لگانا ہوں گے۔
امریکی ماہر اور ڈیٹا ٹریک ریسرچ نامی کمپنی کے بانی نک کولاس کہتے ہیں کہ کاروبار کے حالات میں ایک بڑی تبدیلی یہ ہو گی کہ معیشت کو دوبارہ کھولنے کے بعد ابتدا میں روایتی عوامی میل جول کی جگہوں پر لوگوں کا ہجوم کم ہو گا۔ اور بہت سے کاروبار شروع میں زیادہ منافع نہیں بنا سکیں گے۔
امریکی چینل سی این بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ یہ ہو گا کہ لوگوں کو کیسے محسوس کرایا جائے کہ نیا معمول پرانے معمول کی طرح ہی ہے۔
کاروباری حلقوں اور سرمایہ کاروں کی نظر میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ تعمیرات، سہولیات اور زراعت ایسے شعبے ہیں جن میں تیزی سے ترقی کی شرح کو پھر سے حاصل کرنے میں زیادہ مواقع ہیں۔ جب کہ بہت سارے باقی شعبے، جن میں تعلیم، بڑے پیمانے پر خرید و فروخت، ثقافت، تفریح اور خوراک کی صنعتیں شامل ہیں، بتدریج ترقی کی کھوئی ہوئی شرح حاصل کر سکیں گی۔
جہاں تک اقتصادی اعداد و شمار کا تعلق ہے تو اقتصادی ترقی کی شرح سن 2020 کے پہلے چار مہینوں میں 4.8 فیصد کم ہوئی ہے۔ ماہرین اس خدشے کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ بے روزگاری کی شرح مزید کئی درجے زیادہ ہو سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ نے جب واشنگٹن میں قائم ایک تھنک ٹینک سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز سے اس موضوع پر بات کی تو انہوں نے اپنی اس تحقیق کا حوالہ دیا جس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور کانگریس کے مابین طے پا جانے والے دو کھرب ڈالر مالیت کے ریلیف پیکج کا ذکر ہے۔
سینٹر سے منسلک سٹیفینی سیگل اور ڈیلن گرسٹیل کہتے ہیں کہ کہ اس بحران کے جواب میں افراد کو براہ راست ریلیف کی رقوم دی گئیں اور اس کے علاوہ مختلف کاروباری کمپنیوں کے لیے رعایتی شرائط پر قرضوں کی سہولت بھی فراہم کی گئی۔
ان ماہرین کے مطابق اگر بین الاقوامی میں تناظر میں دیکھا جائے تو جی ٹونٹی ممالک میں 2009 میں آنے والے مالیاتی بحران کے مقابلے میں اس بار اپنی جی ڈی پی کی ایک بڑی رقم مختص کی ہے۔
ماہرین کے مطابق امریکہ کا رواں سال میں بجٹ کا خسارہ چار کھرب تک جا سکتا ہے۔
بہت سے سرمایہ کار اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے، اس لیے بڑی رقوم کا خرچ کرنا ضروری ہے تاکہ اقتصادی ترقی کی شرح بڑھ سکے۔
لیکن امریکی معیشت کو دوبارہ کھولنے کا وقت ایک اہم ترین فیصلہ ہو گا کیونکہ ابھی کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جدوجہد جاری ہے۔
ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ کی معیشت بہت متنوع ہے اور امریکہ میں اگر کسی ریاست میں اقتصادی مشکلات زیادہ ہیں تو دوسری طرف ایسی ریاستیں جو کہ کرونا وائرس کی وبا سے زیادہ متاثر نہیں ہوئیں، وہاں کی ترقی کی تیز تر رفتار کسی بھی کمی کا ازالہ کر سکتی ہیں۔
ممتاز سرمایہ کار وارن بفٹ نے حال ہی میں اس خیال کا اظہار کیا کہ امریکی معیشت اس بحران کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ اقتصادی بحالی کے بہت سے معاملات پر ابھی کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا۔
یہ سال امریکہ میں صدارتی الیکشن کا بھی سال ہے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق نائب امریکی صدر جوزف بائیڈن نے صدر ٹرمپ کی پالیسی کے مقابلے میں کہا ہے کہ وہ امریکی افریقی کمیونٹی کے چھوٹے درجے کے کاروبار بچانے کے لیے رقوم مختص کرنا چاہتے ہیں۔
میری لینڈ میں مقیم پاکستانی امریکی کاروباری شخصیت ساجد تارڑ کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ موجودہ حالات میں امریکی معیشت کو بہتر طریقہ سے کرونا وائرس کے بحران سے نکال سکتے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صدر ٹرمپ کو ایک طویل کاروباری تجربہ ہے اور یہ کہ صدر ٹرمپ کی گزشتہ تین سالوں میں اقتصادی شعبے میں کارکردگی بھی بہت نمایاں رہی ہیں۔
دوسری طرف ڈیموکریٹس بھی معیشت کو اس الیکشن سال میں ایک اہم ترین قومی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اور انہوں نے صدر ٹرمپ کے کرونا وائرس سے نمٹنے کے طریقے کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔
چونکہ موجودہ عالمی نظام میں دنیا کی اقتصادی ترقی امریکی معیشت سے جڑی ہوئی ہے، اس لیے اس موڑ کو امریکہ کے پھر سے ابھرنے کا ایک موقع بھی قرار دیا جا رہا ہے۔