امریکہ میں والدین کے ملازمت جاری رکھنے میں ڈے کیئر سسٹم سے بہت مدد ملتی ہے۔ چونکہ یہاں مشترکہ خاندانی نظام کا تصور نہیں ہے اس لئے بچہ پیدا ہوتے ہی اس کے لئے کسی ایسے ادارے کی تلاش ہوتی ہے جہاں بچے کو بحفاظت رکھا جا سکے اور ماں باپ ملازمت پر جا سکیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
عام طور پر صرف ایک ماہ کی عمر سے ہی بچہ ڈے کیئر میں جانا شروع کر دیتا ہے جہاں ایسے لوگ اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں جو باقاعدہ تربیت یافتہ ہیں اور ریاست اس کے لئے انہیں باقاعدہ اجازت نامہ جاری کرتی ہے۔
ڈمپل جین بھی ایک مونٹیسوری ادارہ چلاتی ہیں اور ریاست ورجینیا میں ان کا ڈے کیئر کوویڈ نائنٹین کی وجہ سے بند رہنے کے کچھ عرصے بعد اب دوبارہ کھل گیا ہے مگر بچوں کی تعداد بہت کم ہے۔
کرونا وائرس کی جو لہر دوبارہ آئی ہے اس نے امریکہ کی بیشتر ریاستوں میں مزید ہزاروں لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ ان میں ٹیکساس بھی شامل ہے۔
امریکی ٹیلی ویژن نیٹ ورک سی این این کا کہنا ہے کہ ایسے میں جب والدین یہ سوچ رہے ہیں کہ آیا بچوں کو ڈے کیئر بھیجنا محفوظ ہے یا نہیں، ٹیکساس میں ہیلتھ اینڈ ہیومین سروسز کے محکمے کا کہنا ہے کہ ڈے کیئر سینٹرز میں کام کرنے والے 1335 لوگوں کا کرونا کا ٹیسٹ پازیٹیو آیا ہے ان میں 894 ملازمین اور 441 بچے ہیں۔ پیر کے دن کے جاری ہونے والے یہ ان 883 سنٹرز کے اعداد و شمار ہیں جو ٹیکساس میں کھولے گئے تھے۔
کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے امریکہ بھر میں دیگر اداروں اور دفتروں کی طرح سکول کالج اور ڈے کیئر سینٹر بھی بند کر دیے گئے تھے، سکول کالج تو ابھی تک بند ہیں۔ اور اب بھی بیشتر ملازمیں گھر پر رہ کر ہی اپنے ملازمتیں کر رہے ہیں۔
لیکن ایک بہت بڑی تعداد ان ملازمین کی ہے جن کے لئے ملازمت پر حاضر ہونا لازمی ہے جیسا کہ ہیلتھ کیئر ورکرز، ڈاکٹر، نرسیں اور ایسا ہی دیگر عملہ۔
وہ ملازمین جن کے بچے بہت چھوٹے یا سکول جانے کی عمر کے ہیں ان کیلئے بہت مشکل ہو گئی ہے کہ ڈے کیئر اور سکول بند ہونے کی صورت میں وہ بچے کو اکیلا کیسے چھوڑیں۔ دادا دادی اور نانا نانی ایسے میں کام آ سکتے ہیں مگر ایک تو کوویڈ نائنٹین سے انہیں خود خطرات ہیں یا پھر یہ رشتے موجود ہی نہیں
ایسی ہی مشکلات کی وجہ سےبہت سے والدین کو مجبوراً اپنی ملازمت چھوڑنا پڑی ہے۔ اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق بوسٹن میساچوسیٹس کی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی نے اپنی ایک جائزہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 10 مئی سے 22 جون کے دوران 2557 والدین کے ایک سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ امریکہ بھر کے 13 فیصد والدین کو صرف اس لئے ملازمت چھوڑنا پڑی کہ وہ اپنے بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے تھے اور چائلڈ کیئر کا اور کوئی انتظام نہیں تھا۔ اور بعض والدین جز وقتی ملازمت پر مجبور ہوئے۔
دنیا بھر کے ملکوں کی طرح امریکہ میں بھی کرونا وائرس کی وبا کے دوران مشکلات ان ہی لوگوں کیلئے ہیں جن کی آمدنی کم ہے یا ملازمت ایسی کہ وہ باقی لوگوں کی طرح تمام تر سہوتوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
بڑی کمپنیاں اور محکمے اپنے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی سہولت مہیا کر رہے ہیں مگر گراسری سٹورز۔ فاسٹ فوڈ اور حفظانِ صحت کے کارکنوں کو یا پھر نرسوں اور ہیلتھ کئیر ورکرز کو یہ سہولت نہیں دی گئی۔
ایلیزا نوارو سین بینیٹو ٹیکسس میں ایک نرس ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق انہیں صرف اس لئے اپنی نوکری چھوڑنی پڑی کہ ان کے دو چھوٹے بچوں کو رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ ڈے کیئر بند ہو گیا تھا اور کوئی اور دیکھ بھال کرنے والا موجود نہیں۔ وہ کہتی ہیں انہوں نے ٹیلی ہیلتھ میں درجنوں درخواستیں دی ہیں مگر کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا۔
ریاست ورجینیا میں صورتِ حال کچھ مختلف رہی ہے۔ ڈمپل جین کہتی ہیں ان کا ڈے کیئر بھی بند تھا مگر پھر کچھ والدین نے ان سے رابطہ کیا کہ ان کی ملازمت ایسی ہے کہ وہ اپنے گھر سے کام نہیں کر سکتے۔ چنانچہ ڈمپل کہتی ہیں ریاست ورجینیا کے قواعد کے تحت انہوں نے صرف دو بچوں کے لئے ہی اپنا ڈے کیئر کھول دیا تاکہ والدین کو پریشانی نہ ہو۔ اور اس وقت ان کے پاس صرف نو بچے ہیں اور دو سٹاف ممبر جب کہ عام دنوں میں 40 سے زیادہ بچے ہوتے ہیں اور عملے کے سات افراد ۔
کرونا وائرس کی وبا میں بچے کو کسی اور کی نگرانی میں دینا انتہائی مشکل فیصلہ ہے۔ مگر ڈمپل کہتی ہیں کہ وہ امریکی سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول یا سی ڈی سی کی ہدایات پر پوری طرح عمل کرتی ہیں اور والدین بھی مطمئن ہیں۔
امریکہ میں کوویڈ نائنٹین سے پہلے بھی بچے کے لئے ڈے کیئر کی تلاش ایک مسلہ رہا ہے۔ سب والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ڈے کیئر اچھا بھی ہو اور فیس بھی کم ہو مگر اکثر یہ خرچ ہزاروں ڈالر سالانہ ہوتا ہے۔
امریکہ میں بچوں کی دیکھ بھال کے بیشتر ڈے کیئر سینٹرز بند ہونے کی وجہ سے ان میں کام کرنے والے ڈھائی لاکھ سے زیادہ ورکرز بھی بے روزگار ہو گئے ہیں۔ ڈمپل کہتی ہیں صدر ٹرمپ کی جانب سے پے پروٹیکشن پروگرام یا پی پی پی کی ملنے والی رقم سے وہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں دے پائی تھیں مگر آئندہ کیا ہو گا نہیں جانتیں۔
امریکہ میں اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ ڈے کیئر کی صنعت کو کام کرتے رہنا چاہئے ۔ کیونکہ اسی کی وجہ سے باقی صنعتیں قائم ہیں۔ امریکی چیمبر آف کامرس کی تعلیمی پالیسی کی نائب صدر شیرل اولڈہیم کہتی ہیں چائلڈ کیئر انڈسٹری دیگر صنعتوں کو سہارا دیتی ہے اور یہ نہ ہو تو بہت سی دیگر صنعتیں وہاں نہ ہوں جہاں آج ہیں۔
امریکہ کی معیشت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں تمام تر زور اس پر دیا جاتا ہے کہ اس کا پہیہ رکنے نہ پائے۔ یہی وجہ ہے کہ کریڈٹ کارڈ اور دیگر طریقوں سے لوگوں کو قرض لے کر بھی خرچ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
شکاگو سٹیٹ یونیورسٹی میں مارکیٹنگ اینڈ انٹرنیشنل بزنس کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر بخاری کہتے ہیں کہ امریکہ کی معیشت میں میکرو انڈسٹریز کا بڑا اہم کردار ہے اور اگرچہ ٹریول کی صنعت جیسے شعبے مشکل میں ہیں مگر پھر بھی ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ حالات جلد تبدیل ہوں گے۔
ماہرین کہتے ہیں ایک صنعت دوسری کو سہارا دیتی ہے۔ اور کرونا وائرس کی وبا سے متاثرہ تمام تر شعبے اسی کوشش میں ہیں کہ جلد از جلد معیشت کا یہ پہیہ دوبارہ چلنے لگے اور زندگی معمول پر آ جائے۔ مگر یہ کوشش ابھی کوشش ہی ہے کیونکہ کرونا وائرس کہیں جاتا نظر نہیں آتا۔