جدید زمانے میں ملازمت پیشہ خواتین کا کردار مردوں کے مقابلے میں دوگنا ہو گیا ہے۔ وہ ایک جانب گھریلو ذمے داریاں پوری کرتی ہیں تو دوسری جانب دفتری امور بھی کامیابی سے انجام دے رہی ہیں۔
میگزین 'بلوم برگ' نے مورگن اسٹینلے کی جاری کردہ تازہ ترین تحقیقی رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ جن کاروباری اداروں میں خواتین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے وہ ادارے زیادہ بزنس کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایسے کوئی ایک یا دو ملک نہیں ہیں جہاں خواتین ملازمین کی اکثریت رکھنے والے اداروں کی تعداد بڑھ رہی ہے بلکہ یورپی ممالک کے کاروباری اداروں میں ہر تین ملازمین میں سے ایک خاتون ورکر ہے اور ان میں سے اکثر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین ملازمین رکھنے سے ان کے منافعوں میں بہتری آ رہی ہے۔ ایسے اداروں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
مورگن اسٹینلے کے تحقیق کاروں نے ایم ایس سی آئی ورلڈ انڈیکس میں درج دو ہزار کمپینز کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ مطالعہ شائع کیا ہے۔
ان تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کو زیادہ عہدے دینے کے بعد کاروباری حجم، پیداوار اور منافع میں غیر معمولی اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
یہ رجحان ایشیائی مارکیٹ میں بھی تیزی سے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے ماسوائے جاپان کے جہاں خواتین کا تناسب بہت کم ہے۔
اس تناظر میں پاکستان کو دیکھیں تو کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں کی سپر مارکیٹس سے لے کر مارکیٹنگ اور سیلز کے شعبوں اور مالیاتی اداروں تک ہر شعبے میں خواتین کے لیے مواقع موجود ہیں۔
ایک دور میں سیلز گرل کا پیشہ دوسرے کاموں کے مقابلے میں کم تر خیال کیا جاتا تھا اور خواتین صرف تعلیم و طب کے شعبوں میں خود کو کام کرتا دیکھتی تھیں مگر آج مارکیٹنگ کے شعبے سے فارغ التحصیل خواتین کو اچھی سے اچھی ملازمت اور تنخواہ آفر کی جاتی ہے۔
یہی صورت حال ہوٹل انڈسٹری کی بھی ہے ۔ فائیو اسٹار ہوٹلز کے ساتھ ساتھ چھوٹے بڑے علاقوں میں قائم ریسٹورینٹس میں بھی آج خواتین ہر کام کر رہی ہیں۔
ہوٹل اور ریسٹورینٹس کے مالکان کا خیال ہے کہ اس طرح ایک تو ان کے صارفین کی تعداد بڑھ گئی ہے تو دوسری جانب منافع میں اضافہ ہو رہا ہے۔