ڈیجیٹل شعبے میں ہونے والی پیش رفت سے دنیا بھر میں جاری کاروبار متاثر ہوئے ہیں جن میں موسیقی سے لیکر مصنوعات سازی تک کے کاروبار شامل ہیں۔ اس سے کاروبار کرنے اور چیزوں کی خرید و خروخت کے انداز میں بھی بتدریج تبدیلیاں سامنے آئی ہیں۔
عالمی تجارت میں ہونے والی ڈیجیٹل پیش رفت سے مصنوعی ذہانت، ای کامرس اور مشینوں کے ذریعے ترجمہ کرنے کے کاروباروں میں مثبت تبدیلیاں سامنے آئی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پیش رفت کے باعث مذکورہ کاروبار کرنے والی کمپنیوں کیلئے اخراجات میں کمی کرنا ممکن ہوا جس کا زیادہ فائدہ چھوٹے ممالک کے برآمدکنندگان اور نئی کمپنیوں کو ہوا۔
بہت بڑے اور طاقتور سرورز نے مختلف ممالک میں ہونے والے سودوں اور ڈیٹا کو مربوط بنایا۔ اس نئے نظام کو ’بلاک چین‘ کا نام دیا گیا ہے۔ بلاک چین کے ذریعے دور دراز کے ملکوں کی نئی اور چھوٹی کمنیوں کیلئے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ وہ اپنے ممکنہ گاہکوں کو باور کرا سکیں کہ وہ مطلوبہ مصنوعات کی تیاری اور اُن کی فراہمی اسی انداز میں کرنے کی اہل ہیں جیسا اُنہوں نے اُن سے وعدہ کر رکھا تھا۔
عالمی تجارتی تنظیم ورلڈ ٹریڈ آرگنایزیشن کے سربراہ روبرٹو ایزی ویڈو کا کہنا ہے کہ ہر کوئی فاکس ویگن، ٹویوٹا یا آئی بی ایم سے واقف ہے۔ لیکن کوئی بھی چھوٹی کمپنیوں کے بارے میں نہیں جانتا کہ آیا وہ قواعد و ضوابط کے مطابق کاروبار کرنے کی اہل ہیں یا نہیں۔ اُن کو کاروبار کرتے ہوئے کتنا عرصہ ہوا ہے؟ کیا وہ قانونی تقاضے پورا کر رہی ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ ’بلاک چین‘ کے ذریعے اب ان سوالوں کے جواب مل سکیں گے۔
ڈیجٹل شعبے میں ایک اور پیش رفت 3-D پرنٹنگ ہے جس کے نتیجے میں اس بات کا امکان ہے کہ کچھ فیکٹریوں کی جگہ ایسی مشینیں لے لیں گی جو محض کاغذ پر چھپائی کرنے کے بجائے باقاعدہ شکل و صورت رکھنے والی اشیا کو پرنٹ کر سکیں۔ خدشہ ہے کہ 3-D پرنٹنگ کی ٹکنالوجی سے ترقی پزیر ممالک میں کم مہارت کے حامل اور کم اجرت پانے والے افراد کی ملازتیں کم ہو جائیں گی۔ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ٹکنالوجی کے ماہر جوشوا میلٹزر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے خیال میں اس سے ترقی پزیر ممالک کو کم اجرتی مزدوری کے حوالے سے جو فوقیت حاصل تھی وہ ختم ہو جائے گی۔
ترقی پزیر ممالک کے دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی رسائی بہت کم ہے۔ اس وقت دنیا کی محض نصف آبادی کو ہی انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے۔ جوشوا میلٹزر کا کہنا ہے کہ حقیقی پیش رفت کیلئے براڈ بینڈ ار موبائل فونز کی رسائی نہایت اہم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس قسم کی پیش رفت کی اصل بنیاد میں یقینی طور پر ایسے انٹرنیٹ پلان بھی شامل ہوں گے جن کے لوگ متحمل ہو سکیں۔
ترقی یافتہ معیشتوں کی ترقی کی اصل وجہ مصنوعات سازی میں پیش رفت ہے۔ تاہم ترقی یافتہ ممالک میں معاشی سرگرمیاں اب مصنوعات سازی سے ہٹ کر خدمات کے شعبے میں کاروباری جدت اور اطلاعات کی جانب منتقل ہو رہی ہیں۔ ترقی پافتہ معیشتوں کو ترقی پزیر ممالک کے مقابلے میں برتری حاصل ہے کیونکہ اُنہیں زیادہ تعداد میں ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ کارکنوں کی خدمات حاصل ہیں جن کے پاس خدمات کے شعبے میں مخصوص مہارتیں موجود ہیں۔
’امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ‘ کے کلاؤڈے بارفیلڈ کے مطابق خدمات کے شعبے کی جانب جھکاؤ سے ترقی پزیر ممالک کیلئے اپنی معاشی کامیابیوں کو جاری رکھنا مشکل تر ہوتا جائے گا۔ اُن کا کہنا ہے:
کلاؤڈے کا مزید کہنا ہے کہ سیاست معاشی مسائل کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے کیونکہ ترقی پزیر ممالک کے لیڈر اس بات پر منقسم رہیں گے کہ کیا وہ نئی ڈیجٹل کمنیوں کو اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کیلئے آزادی سے کام کرنے کی اجازت دیں یا پھر ڈیجٹل ٹیکنالوجی کو محض سوشل کنٹرول یا سیاسی مقاصد کیلئے ہی استعمال کریں۔