سندھ حکومت کا لاک ڈاؤن مزید سخت کرنے کا اعلان، وفاق کی تنقید

مراد علی شاہ نے خبردار کیا ہے کہ صوبے میں کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کا تناسب 2.4 فی صد ہے جو دنیا میں اس مرض سے ہونے والی اموات کی شرح سے زیادہ ہے۔

سندھ کے وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ نے خبردار کیا ہے کہ صوبے میں کرونا وائرس کی اموات کا تناسب 2.4 فی صد ہے جو دنیا میں اموات کی شرح سے زیادہ ہے۔ دوسری جانب مرکزی حکومت نے صوبائی حکومت کے اقدامات پر تنقید کی ہے۔

بدھ کو کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ صوبے میں کرونا کے بہت سے ایسے کیسز ہیں جو رپورٹ نہیں ہو رہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ صوبے بھر میں لاک ڈاؤن نہ صرف جاری رہے گا بلکہ اسے مزید سخت کیا جائے گا۔ صرف ان صنعتوں میں کام کرنے کی اجازت ہوگی جہاں احتیاطی تدابیر پر عمل ممکن بنایا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ تبلیغی جماعت سے منسلک 5000 افراد صوبے میں قرنطینہ میں ہیں۔ ان میں سے جو لوگ صحت یاب ہو رہے ہیں ان کو سرٹیفکیٹ دے کر گھر روانہ کیا جا رہا ہے۔

سید مراد علی شاہ نے وزیرِ اعظم کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سب کو ساتھ لے کر کاروبار کھولنے سے متعلق ضابطہ تیار کیا۔

وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ وزیر اعظم نے ان کی تجاویز کو تحمل سے سنا، مانا اور ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم بھی کراچی آئیں تو ان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ گائیڈ لائنز پر عمل کریں تو اس سے اچھا تاثر جائے گا۔

کرونا وائرس سے بچاؤ کی کوششیں

مراد علی شاہ نے مزید کہا کہ اگلے دو ہفتے بھی سخت لاک ڈاؤن ہوگا سوائے ان سرگرمیوں کے جس کی اجازت حکومت نے دی ہے لیکن ان کی کی بھی سختی سے نگرانی کی جائے گی۔

انہوں نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ بلاوجہ گھروں سے بالکل نہ نکلیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مستقبل قریب میں یہ نظر نہیں آتا کہ اس وائرس کا کوئی حل جلد نکل پائے گا۔

کاروبار کھولنے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ سندھ میں جہاں تک ہو سکتا ہے قواعد و ضوابط پر عمل کرائیں گے۔ صنعتوں، تعمیرات اور دیگر شعبوں کو اس وقت تک نہیں کھولا جائے گا جب تک اس کا طریقہ کار طے نہ کرلیا جائے۔ جو بھی بلڈر ہدایات پر عمل نہیں کرے گا اسے کام کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ تاجروں اور علما سے بھی ملاقاتیں جاری ہیں اور عبادات سے متعلق بھی قواعد طے کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح ہوٹلوں میں بھی بیٹھ کر کھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

وزیرِ اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ موٹر سائیکلوں پر ڈبل سواری اور کئی بچوں کے ساتھ سفر کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔

مراد علی شاہ کے مطابق صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ درزی، پلمبر اور بجلی سے متعلق دکانیں بند ہی رہیں گی۔

Your browser doesn’t support HTML5

'سب کچھ تو بند ہے، سواری کہاں سے آئے گی'

انہوں نے کہا کہ کرونا کے مرض کو ایک داغ بنا لیا گیا ہے اور متاثرہ شخص کے رشتہ دار بھی لاش نہیں لیتے۔

مراد علی شاہ نے ان الزامات کو سختی سے رد کیا کہ صوبے میں غریب اور مستحق افراد کو راشن کی فراہمی میں کوئی بدعنوانی کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے 58 کروڑ روپے کی رقم جاری کی ہے جس سے اب تک ڈھائی لاکھ راشن بیگز تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ اسی طرح کرونا ریلیف فنڈ میں سے تین ارب روپے جاری کیے جاچکے ہیں۔

'وزیر اعلیٰ کا اختیار ہے کہ وہ سندھ میں کرفیو لگا دیں'

دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ مراد علی شاہ کا اختیار ہے کہ وہ سندھ میں لاک ڈاؤن کریں اور وہاں عوام کو گھروں سے نہ نکلنے دیں یا کرفیو لگا دیں۔ فیکٹریاں بند کر دیں اور ٹرانسپورٹ نہ چلنے دیں۔ لیکن اس کے ساتھ ان کی ذمہ داری ہے کہ غریبوں کو دو وقت کا کھانا فراہم کریں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ صوبوں کی صوابدید پر ہے کہ وہ حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلے کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبہ سندھ کی حکومت کو کہا گیا ہے کہ وہ صوبے کے مفاد میں جو کرنا چاہتی ہے، اس حوالے سے فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔

فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے لوگوں کی موت کی بات کی۔ رہنما ہمیشہ عوام کو ایک امید دیتا ہے اور قوم اسے دیکھ رہی ہوتی ہے۔

کرونا وائرس سے متعلق کچھ غلط فہمیاں اور حقائق

اس موقع پر انہوں نے وفاقی حکومت کے احساس پروگرام کا بھی ذکر کیا جس کے تحت تین ماہ کے لیے ضرورت مند خاندانوں کو 12 ہزار روپے دیے جا رہے ہیں۔

معاون خصوصی برائے اطلاعات نے وزیرِ اعلٰی سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت بھی اپنا کردار ادا کرے اور لوگوں کی زندگی کی بات کی جائے۔ موت کی باتیں کرکے لوگوں کو مایوس نہ کیا جائے۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سندھ میں اموات زیادہ ہوئی ہیں جب کہ انتہائی نگہداشت میں بھی لوگ زیادہ ہیں۔ سندھ میں پالیسی پر عمل درآمد میں کہیں نہ کہیں فقدان ہے۔ اسی لیے نتائج کا حصول ایک چیلنج ہے۔

ان کے مطابق وفاقی حکومت سندھ میں رہنے والوں کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑے گی۔ وفاقی حکومت خاموش تماشائی نہیں بن سکتی۔