|
ویب ڈیسک — پاکستان کے ایوانِ زیریں (قومی اسمبلی) کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس طلب کرتے ہوئے گرفتار اراکینِ اسمبلی کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا اور اسپیکر سے مطالبہ کیا کہ پارلیمنٹ کے اندر سے اراکین کی گرفتاری کا نوٹس لیا جائے۔
اسپیکر ایاز صادق نے بھی پارلیمنٹ ہاؤس سے اراکین کی گرفتاری پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اس معاملے پر اسٹینڈ لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ خود کو اس اعتبار سے بدقسمت سمجھتے ہیں کہ ان کی اسپیکرشپ کے دوران پارلیمنٹ پر ماضی میں دو حملے ہو چکے ہیں۔ کل کے واقعے پر کارروائی ہو گی اور خاموشی سے نہیں بیٹھیں گے۔
اسلام آباد پولیس نے پی ٹی آئی کے آٹھ ستمبر کو ہونے والے جلسے کے بعد پارٹی رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر، شیر افضل مروت، زین قریشی اور ملک عامر ڈوگر سمیت کئی پارٹی رہنما اور اراکینِ اسمبلی گرفتار ہو چکے ہیں جب کہ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کئی گھنٹوں تک منظر عام سے غائب رہنے کے بعد منگل کی صبح اسلام آباد سے پشاور پہنچ گئے ہیں۔
منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکومت اور اپوزیشن بینچز سے پی ٹی آئی اراکین کی گرفتاری پر گرما گرم بحث کے دوران اسپیکر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے تمام دروازوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج منگوا لی ہیں۔ کل جو کچھ ہوا اس پر خاموش نہیں رہنا، اس پر ایکشن لینا ہے اور ایف آئی آر کٹوانی پڑی تو کٹوائیں گے۔
اس سے قبل پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نے ایوان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ شب پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی ارکان نے پناہ لی جنہیں نقاب پوش افراد نے حراست میں لیا۔
انہوں نے کہا کہ جمشید دستی اور مولانا نسیم کو پارلیمنٹ کی مسجد سے اٹھایا گیا۔ ہم اسرائیل میں نہیں پاکستان میں رہتے ہیں۔ جس نے پارلیمنٹ پر دھاوا بولا، اگر آرٹیکل چھ لگانا ہے تو اس پر لگائیں۔
علی محمد خان کی تقریر کے دوران سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی قومی اسمبلی کی کارروائی کو بھی روک دیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی نے اراکینِ اسمبلی کی گرفتاری کا الزام ریاستی اداروں پر عائد کیا ہے اور کہا کہ ملک میں عملی طور پر ایک جعلی عسکری حکومت کی سرپرستی میں آمریت نافذ ہے اور جمہوریت کو کچلنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔
فوری طور پر حکومت یا ریاستی اداروں کی جانب سے پی ٹی آئی رہنماؤں کو حراست میں لیے جانے سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس نے پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف 'اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر 2024' کے تحت تھانہ سنگجانی اور تھانہ نون میں مقدمات درج کیے ہیں۔ مقدمات میں کارِ سرکار میں مداخلت، توڑ پھوڑ اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی دفعات شامل ہیں۔
مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر، عمر ایوب، زرتاج گل، عامر مغل، شعیب شاہین، شیر افضل مروت کے علاوہ سیمابیہ طاہر اور راجہ بشارت سمیت 28 مقامی رہنما نامزد ہیں۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف جس قانون کے تحت مقدمات درج ہوئے ہیں وہ قانون جلسے سے چند روز قبل ہی منظور ہوا تھا جس پر صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے سات ستمبر کو یعنی جلسے سے ایک روز قبل ہی دستخط کیے تھے۔
اسلام آباد میں اجتماعات سے متعلق نئے قانون کے تحت پہلا مقدمہ پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف درج گیا گیا ہے۔
پانچ ارکانِ اسمبلی کا آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
وائس آف امریکہ کے عاصم علی رانا کے مطابق عدالت نے پولیس کی استدعا پر پانچ ارکانِ اسمبلی سمیت آٹھ ملزمان کو جسمانی ریمانڈ پر آٹھ روز کے لیے پولیس کے حوالے کردیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ ملزمان جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر عدالت میں دوبارہ پیش کیے جائیں۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے تھانہ سنگجانی میں درج مقدمے میں شیر افضل مروت، عامر ڈوگر، زین قریشی سمیت دیگر کا آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں اڈیالہ جیل بھجوا دیا گیا جب کہ پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر کو اس مقدمے سے ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اتوار کی شام پی ٹی آئی کی ریلی کے بعد اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے اور دیگر علاقوں سے پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں اور اراکین پارلیمنٹ کی من مانی گرفتاریوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ پولیس نے ان گرفتاریوں سے قبل قومی اسمبلی کے اسپیکر کو آگاہ نہیں کیا، اس طرح پارلیمانی قواعد کی خلاف ورزی کی گئی۔
قومی اسمبلی کے رولز کے مطابق اگر کسی بھی رکن قومی اسمبلی کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہے اور وہ پولیس کو مطلوب ہے تو پولیس اسپیکر قومی اسمبلی کو اس رکن کی گرفتاری کے حوالے سے درخواست دے گی اور اسپیکر کی پیشگی اجازت کے بعد ہی رکن قومی اسمبلی کو گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
اس ایف آئی آر کے مطابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہاں موجود دیگر قائدین نے علی امین گنڈا پور کے کہنے پر پولیس ملازمین کو حبس بے جا میں رکھا۔
اس کے ساتھ ساتھ علی امین گنڈا پور نے اپنے گن مین سے گن لے کر ڈی ایس پی کی کنپٹی پر رکھ دی اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔
علی امین گنڈا پور پر یہ بھی الزام ہے کہ اُنہوں نے ایس ایچ او تھانہ سنگجانی عاصم علی زیدی کا سرکاری وائرلیس سیٹ بھی چھین لیا۔ اس ایف آئی آر کے مطابق عمر ایوب نے ڈپٹی کمشنر کے آرڈر کی کاپی جس میں جلسہ ختم کرنے کا کہا گیا تھا اسے پھاڑ دیا۔
SEE ALSO: پی ٹی آئی کا عمران خان کی رہائی کے لیے الٹی میٹم، اگلا جلسہ لاہور میں کرنے کا اعلانپی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب
ترجمان خیبرپختونخوا حکومت نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے وزیرِ اعلیٰ کو اسلام آباد سے حراست میں لے لیا ہے۔ تاہم منگل کی صبح وزیرِ اعلیٰ کے پریس سیکریٹری نے علی امین گنڈاپور کے پشاور پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔
پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا اسمبلی میں پارلیمانی پارٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک بیان کے مطابق خیبرپختونخوا اسمبلی اجلاس سے قبل پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہو گا جس میں تمام ارکان کو شرکت کی ہدایت کی گئی ہے۔
پی ٹی آئی کے مطابق اجلاس میں پارٹی رہنماؤں و اراکین کی گرفتاری کے معاملات سمیت عمران خان کی رہائی اور آگے کا لائحۂ عمل طے کیا جائے گا۔
بیان کے مطابق پارلیمانی پارٹی اجلاس میں وفاقی حکومت کے خلاف اہم فیصلوں کا امکان ہے۔