ایک حالیہ سائنسی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے سمندروں اور جھیلوں کا پانی بھی گرم ہو رہا ہے اور اگر درجہ حرارت مچھلیوں کی جسمانی ساخت کے موافق نہ رہا تو نر اور مادہ کے ملاپ میں 60 فی صد تک کمی ہو جائے گی جس کے نتیجے میں ان کے انڈوں اور نوزائیدہ مچھلیوں کی تعداد بھی نمایاں طور پر گھٹ جائے گی۔
قطبی علاقوں اور سمندروں کی تحقیق سے متعلق ہلم ہالٹ سینٹر کے الفرڈ ویگنر انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والی ایک ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات مچھلیوں پر اتنے شدید ہیں کہ وہ دنیا بھر کے لیے ایک بڑھ دھچکے کے مترادف ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، بڑھتا ہوا درجہ حرارت مچھلیوں کی مختلف اقسام پر اس سے کہیں زیادہ اثرانداز ہوتا ہے جتنا اس سے پہلے سوچا جا رہا تھا، کیونکہ مچھلیاں پانی کے درجہ حرارت کے بارے میں بہت حساس ہوتی ہیں۔ نر اور مادہ مچھلیاں ایک خاص درجہ حرارت والے پانیوں میں ہی ملاپ کرتی ہیں اور انڈے دیتی ہیں۔ درجہ حرارت بڑھنے کی صورت میں وہ اس جگہ سے کسی اور مقام کی طرف ہجرت کر جاتی ہیں۔
تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ انڈے دینے کے مقام کا درجہ حرارت یہ طے کرتا ہے کہ مچھلیاں ملاپ کریں گی یا نہیں۔ اگر ملاپ نہیں ہو گا تو انڈے ہوں گے اور نہ ہی ان سے بچے پیدا ہوں گے، چونکہ سمندر انسانی خوراک کا ایک اہم ذریعہ ہیں، مچھلیوں کی پیداوار گھٹنے سے انسان کو خوراک کی قلت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایک سائنسی جریدے 'سائنس' میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جب انڈوں میں جان پڑتی ہے تو جنین کو توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ توانائی انہیں آکسیجن مہیا کرتی ہے۔ آکسیجن کے لیے وہ سانس لیتے ہیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے جو انسان سمیت ہر جاندار پر صادق آتا ہے۔
ریسرچرز کا کہنا ہے کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ توانائی کا تعلق گردوپیش کے درجہ حرارت سے ہوتا ہے۔ اگر ہم مچھلیوں کی بات کریں تو ان کی افزائش گاہوں یا انڈے دینے کے مقام کا درجہ حرارت ایک مخصوص سطح سے زیادہ ہو تو ان سے بچوں کی پیدائش کے لیے زیادہ آکسیجن کی ضرورت پڑتی ہے، جب کہ جنین میں آکسیجن جذب کرنے کی صلاحیت ایک خاص حد تک ہی ہوتی ہے۔ پانی کا درجہ حرارت بڑھنے سے وہ مطلوبہ مقدار میں آکسیجن حاصل نہیں کر پاتے اور انڈے ضائع ہو جاتے ہیں۔
تحقیق سے منسلک آبی حیات کے ایک سائنس دان ڈاکٹر فلیمنگ ڈالکے کہتے ہیں کہ دنیا میں جوان مچھلیاں اپنے ملاپ کے سیزن کے علاوہ پانی کے درجہ حرارت میں 10 درجے سینٹی گریڈ تک اضافے میں زندہ رہ لیتی ہیں، لیکن ملاپ کرنے اور انڈے دینے کے لیے انہیں اسی مخصوص درجہ حرارت کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مچھلی کے جنین کی ساخت ہے کیونکہ اس میں تغیر پذیر درجہ حرارت کے تقاضوں کے مطابق اضافی آکسیجن حاصل کرنے کے لیے گلپھڑے نہیں ہوتے۔ اس کا اطلاق مچھلیوں کی تمام اقسام پر ہوتا ہے۔
تحقیق کے مصنف پروفیسر ہانز اوٹو پورٹنر کہتے ہیں کہ اگر ہم سن 2100 تک کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو زیادہ امکان یہ ہے کہ مچھلیاں اپنے انڈے دینے کے ٹھکانے نہیں چھوڑیں گی۔ لیکن اس وقت جس شرح سے عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، اس کے پیش نظر کرہ ارض کا ٹمپریچر 2100 تک 5 ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے زیادہ بڑھنے کا امکان ہے جس سے یہ خطرہ ہے کہ مچھلیوں کی تمام نسلیں 60 فی صد تک کم ہو جائیں گی۔