چین نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ آئندہ ہونے والے تجارتی معاہدے کے کامیاب نتائج کا خیرمقدم کرے گا ، لیکن وہ ہر طرح کی صورت حال کے لیے پوری طرح تیار ہے اور اپنے کلیدی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
چین کی حکومت کے ایک عہدے دار نے بدھ کے روز کہا کہ بات چیت لازمی طور پر برابری اور باہمی منفعت کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
عہدے دار کا مزید کہنا تھا کہ بیجنگ واشنگٹن کی جانب سے کسی بھی تجارتی دھمکی کو خاطر میں نہیں لائے گا اور نہ ہی بات چیت کے لیے پیشگی شرائط قبول کرے گا۔
ایک اعلیٰ سطحی امریکی تجارتی وفد بیجنگ کے دورے پر ہے جہاں وہ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تلخ تجارتی تنازع پر چینی حکام کے ساتھ بات چیت میں حصہ لے رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کو مشترکہ منصوبوں کے تقاضوں اور دوسری پالیسیوں کی بنا پر سزا دینے لیے چینی درآمدت پر 150 ارب ڈالر مالیت کے محصولات عائد کر دیے ہیں، جن کے متعلق صدر کا کہنا ہے کہ امریکی کمپنیوں کو چینی حکومت کی سرپرستی میں کام کرنے والے مسابقتی اداروں کے پاس اپنے متاح دانش کے حقوق سے دست بردار ہونا پڑتا ہے۔
چین نے اس الزام سے انکار کیا ہے وہ امریکی کمپنیوں پر یہ زور دیتا ہے کہ وہ اپنی ٹیکنالوجی چین میں منتقل کریں اور اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے عائد کیے جانے والے کسی بھی قسم کے ٹیکس کا وہ جواب دے گا۔
امریکہ نے چین سے کہا ہے کہ وہ دوطرفہ تجارت کے اپنے حق میں فائدے میں ایک سو ارب ڈالر کی کمی کرے۔ امریکہ چین کے پروگرام میڈ ان چائنا 2025 کے بھی حق میں نہیں ہے جس کا مقصد زیادہ ترقی یافتہ مصنوعات بنانے کے لیے مقامی صنعتوں کی بنیاد کو ترقی دینا ہے۔
چینی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ بیجنگ تجارتي یا کسی اور معاملے پر پیشگی شرائط کے ساتھ مذاكرات قبول نہیں کرے گا۔
پچھلے سال امریکہ ساتھ تجارت میں چین کو 375 ارب ڈالر کا ریکارڈ فائدہ ہوا تھا۔