امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایک سو ارب ڈالر کی چینی مصنوعات کے لیے اضافی ٹیکس عائد کرنے کی دھمکی اور بیجنگ کے اس پر شدید ردعمل کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ نے کہا ہے کہ امریکہ، چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں نہیں الجھ رہا۔
وائٹ ہاوس کے مشیر اقتصادی امور لیری کڈلو نے واشنگٹن اور بیجنگ کے بیانیے پر بڑھتے ہوئے تحفظات کے تناظر میں کہا کہ " یہ صرف ایک تجویز ہے جس کا یو ایس ٹی آر 'امریکی تجارتی نمائندہ' جائزہ لے گا اور پھر اس پر عوامی رائے بھی طلب کی جائے گی، لہذا ابھی کچھ نہیں ہوا نہ ہی کچھ نافذ کیا گیا ہے۔"
ان کے بقول بیجنگ کی طرف سے حقوق دانش کی مبینہ چوری امریکی تحفظات کی جڑ ہے اور "ہم چین کو ہماری ٹیکنالوجی چوری کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، کیونکہ جب وہ ہماری ٹیکنالوجی چوری کرتے ہیں تو وہ امریکی مستقبل کو چوری کر رہے ہیں۔"
مشیر نے زور دے کر کہا کہ ٹرمپ اور چینی صدر شی جنپنگ کے مابین تعلقات اچھے ہیں اور "جاری بات چیت بہت سے مسائل کو حل کر لے گی، لیکن ہم سنجیدہ ہیں۔"
وائٹ ہاوس کا دعویٰ ہے کہ چین کے تجارتی طریقے غیر شفاف اور غیر قانونی ہیں۔
وائٹ ہاوس کی ترجمان سارہ ہکابی سینڈر نے جمعہ کو نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ "چین نے یہ مسئلہ کھڑا کیا، اور صدر ان پر یہ دباو ڈال کے اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور گزشتہ کچھ دہائیوں میں کیے گئے بعض غلط اقدام کو واپس لے رہے ہیں۔"
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ اور چین باقاعدگی سے رابطے میں ہیں لیکن "یہ مشاورت کا دور ہے، یہی وجہ ہے کہ کچھ بھی اچانک نہیں ہوتا، ایک عمل ہے اور ہم اس عمل سے گزر رہے ہیں۔"
ادھر بیجنگ نے بھی اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
چین کی وزارت تجارت کے ترجمان گاو فنگ کہتے ہیں کہ ہیں " چین پہلے ہی پوری طرح تیار ہے۔ اگر امریکہ ایک سو ارب ڈالر کا اضافی ٹیرف اعلان کرتا ہے، تو ہم بھی اس کے فوری ردعمل پر ہچکچائیں گے نہیں۔ ہم کسی بھی امکان کو مسترد نہیں کرتے۔"
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں فریقین کے لیے اس معاملے پر مذاکرات کرنا اور بھی ناممکن ہے۔