چین میں گزشتہ سال کے دوران انٹرنیٹ شخصیات کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں سٹریمنگ ویڈیو کی صنعت نے جنم لیا اور اس نے کچھ افراد کو کروڑ پتی بنا دیا۔
تاہم اس میڈیم نے جس قدر تیزی سے مقبولیت حاصل کی ہے، اسی مناسبت سےحکام بھی اسپر کڑی پابندیاں عائد کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس طرح عروج پر پہنچتی ہوئی یہ صنعت سرکاری جبر کا ایک اور ہدف بن گئی ہے۔
انٹرنیٹ پر مقبولیت حاصل کر کے اسٹار بننے والوں کی تعداد میں اضافے نے چینی نوجوان نسل کو بے حد متاثر کیا ہے، اِن میں خاص طور پر 1990 کی دہائی میں پیدا ہونے والے افراد شامل ہیں جو چین کی داخلی سٹریمنگ انٹرنیٹ مارکیٹ میں شہرت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
اعدادوشمار کے انٹرنیٹ پورٹل سٹے ٹسٹا کا تخمینہ ہے کہ یہ صنعت اس سال کم از کم 9 ارب ڈالر کی ہو چکی ہے جو 2015 کے مقابلے میں 55 فیصد زیادہ ہے اور جس کے شائقین کی تعداد 50 کروڑ سے زائد ہے۔
وانگ ہونگ
انٹرنیٹ کے کامیاب ستاروں کو مینڈرین زبان میں وانگ ہونگ کہتے ہیں۔ یہ حوالہ ایسے افراد کے لیے استعمال ہوتا ہے جو مشہور سائبر شخصیت بن جاتے ہیں اور پھر اپنی آن لائن شہرت کو تمام شعبوں میں ایک حقیقی کاروبار میں تبدیل کر دیتے ہیں جو محض تفریح، حسن اور فیشن تک محدود نہیں رہتا۔
کالج کی 20 سالہ طالبہ ہووانگ ژیانر ایڈورٹائزنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور اُن کا شمار بھی اُن وانگ ہونگ خواہشمندوں میں ہوتا ہے جس کی تلاش میں وہ خود اور اُن کے ساتھی مسلسل کوشاں ہیں۔
ہووانگ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب وہ اس سال موسمِ گرما میں کالج سے فارغ التحصیل ہوئیں تو انٹرنیٹ پختگی اختیار کر چکا تھا’’اب انٹرنیٹ پر براہ راست نشریات کی صنعت اپنے عروج پر ہے، ممکن ہے میرے کچھ ساتھی بھی اسی کاروباری شعبے میں ہی کام کریں۔‘‘
انٹرنیٹ پر شہرت حاصل کرنے والی بہت سی لڑکیاں گاتی ہیں یا رقص کرتی ہیں، ہووانگ نے ایک مختلف شعبے کا انتخاب کیا ہے اور وہ اپنی تربیت کو سیرو سیاحت کی ایک ماہر کے طور پر استعمال کر رہی ہیں اور شہر کی سیر و سیاحت کے بارے میں مختصر فیچر تیار کرتی ہیں۔
مختصر دورانیے کے ان فیچرز کو تیار کر کے یوکو پر موجود اُن کی کمپنی کے لائیو ویڈیو چینل پر پیش کر دیا جاتا ہے، یوکو دراصل یوٹیوب کی چینی شکل ہے۔
اس ویب سائیٹ کو دیکھنے والوں کی وجہ سے ہونے والی آمدنی اور کاروباری اسپانسرشپ نے آن لائن کاروبارکے لیے سرمایہ فراہم کیا ہے۔ تاہم اس کاروبار سے ابھی منافع شروع نہیں ہوا ہے کیونکہ ہووانگ کی کمپنی ورماڈل کے مطابق ہووانگ نے ہزاروں شایقین کو متوجہ کرنا ابھی شروع ہی کیا ہے۔
دس ارکان کے عملے کے ساتھ یہ چھوٹی کمپنی 30 سے زائد آن لائن شخصیات کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کر چکی ہے۔
شہرت کی بلندیوں کی طرف جانے والا راستہ
چین میں انٹرنیٹ اسٹارز کی اے لِسٹ کی پہلی نسل میں ادبی شخصیات شامل ہیں جیسے کہ آن لائن مصنف ہان ہان جو ٹائم جریدے کے 2010کے لیے انتہائی بااثر لوگوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
چِنگ داؤ مائیکرو اِنّوویشن مارکٹنگ پلاننگ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو مَینگ دیمنگ کہتے ہیں کہ اُس وقت سے سوشل میڈیا کی پختگی کے ساتھ ، جسے ویڈیو بلاگنگ کے لیے ٹیکنالوجی کی اعانت بھی حاصل رہی ہے، چین کے نیٹ استعمال کرنے والے شہریوں کو اجازت دی گئی کہ وہ صارفین کی طرف سے ترتیب دیئے گئے بصری مواد یعنی (وڈیو مواد) کو مقبولیت کے حصول کی خاطر شیئر کریں۔
مینگ کہتے ہیں کہ ہاتھ میں تھامی جانے والی ڈیوائسز کی مارکیٹ میں آمد کے ساتھ انٹرنیٹ ویڈیو کی رسائی میں اضافہ ہوا اور یوں وانگ ہونگ کو شہرت کی بلندیوں تک لیجانے والا سفر آسان ہو گیا۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ تیز رفتار مزاح پر مبنی خود کلامی کے ساتھ پاپی جی آنگ کی کامیابی نے ابھرتی ہوئی صنعت میں ایک نئے باب کا آغاز کر دیا ہے۔
مینگ کا کہنا ہے کہ 2010 میں وانگ ہونگ کہلانے والی معیشت میںویڈیو پوسٹس کے اضافے سے انتہائی ترقی ہوئی۔ مثال کے طور پر پاپی جی آنگ نے اس سال کے آغاز میں کامیابی سے اپنے لیے سرمائے میں خاطر خواہ اضافہ کیا اور شہر بھر میں ہر ایک کی زبان پر اُنہیکا تذکرہ رہا۔
ژیانگ کے کامک ویڈیو مونوبلاگز میں روزمرہ زندگی کے موضوعات کا مضحکہ اُڑایا جاتا ہے جس میں چین میں مردوں اور عورتوں کے درمیان تعلقات جیسے موضوعات بھی شامل ہیں۔
چار ماہ کے عرصے میں اُن کی ویڈیوز پر 29 کروڑ ہٹس ہوئیں یعنی (29 کروڑ صارفین نے ویڈیو دیکھی)۔ مارچ میں وہ اُس وقت راتوں رات شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گئیں جب ایک سرمایہ کار نے 17 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور اپریل میں ہونے والی اشتہاری ویڈیوز کی نیلامی میں بِڈ کرنے والوں نے اپنے برانڈ کی تشہیر کیلئے اس ویب اسٹار کی خدمات کے حصول کیلئے 30 لاکھ ڈالر تک کی پیشکش کی۔
تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ چین کی وانگ ہونگ معیشت کی صورت حال اور بھی بہتر ہو گی اگر وانگ ہونگ اپنے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے تمام شعبوں کیایسی پراثر شخصیات کو اپنے ساتھ شامل کریں جو آن لائن کارآمد کاروباری ماڈل کے متحمل ہو سکتے ہیں۔
انٹرنیٹ کنٹرول
تاہم مینگ کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ انٹرنیٹ کنٹرول کے وسیع سلسلے سے مجموعی طور پر اس صنعت کی شکل و صورت ہی تبدیل ہو جائے۔
اس انٹرنیٹ کنٹرول میں براہ راست نشریات ’لائیو اسٹریمنگ‘پر حال ہی میں لگائی گئی پابندی کا اطلاق بھی شامل ہے، تاہم توقع یہی ہے کہ آن لائن شہرت یافتہ شخصیات پر اس کا اثر محدود ہی رہے گا۔
مثال کے طور پر ذاتی سطح پر ژیانگ کو مبینہ طور پر سوشل نیٹ ورکنگ کے کچھ مخصوص پلیٹ فارمز کی ایما پر اپنی متعدد پوسٹس کو اس لیے ہٹانا پڑا کیونکہ حکام نے اُن کی زبان کو فحش اور ناشائستہ قرار دیا تھا۔
ورماڈل کا کہنا ہے کہ اُس کے ہنر مندوں کو ابھی تک کوئی انتباہ جاری نہیں کیا گیا ہے اور صرف پلیٹ فارم کی طرفسے اس یقین دہانی کا تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ اپنی آن لائن براہ راست نشریات کو ’’سبز اور صحت مند‘‘ رکھیں گے۔
چین کی وزارتِ ثقافت کی جانب سے اس ہفتے کے آغاز میں ایک نوٹس جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق اس صنعت کی وسیع تر سطح پر ملک کے 200 آن لائن براہ راست نشریات کے پلیٹ فامرز کو اجازت نامے حاصل کیے بغیر براہ راست نشریات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ براہ راست نشریات پیش کرنے والے فنکاروں کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ اپنے اصل ناموں کا اندراج کرائیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے مواد کے لیے ذمہ دار بھی ہوں گے ۔ نوٹس کے مطابق یہ اقدام اُن ضابطوں کے عین مطابق ہو گا جو پریس، پبلی کیشن، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی ریاستی انتظامیہ نے گزشتہ ستمبر میں متعارف کرائے تھے۔
مقامی ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ اس صنعت میں ردوبدل اب ناگزیر ہو گیا ہے کیونکہ اب ملک میں براہ راست آن لائن نشریات کرنے والے 200 پلیٹ فارم انتطامیہ کے جبری راڈار کے نیچے ہوں گے۔
آزادی اظہار پر دباؤ
بیجنگ فارن اسٹڈیز یونیورسٹی کے پروفیسر چیاؤ مو یہ دلیل دیتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے سخت کنٹرول کے پس پردہ حقیقی ہدف سیاسی پیش رفت اور متنازعہ سماجی تقریبات کی سرکردہ شخصیات ہی ہوں گی۔
پروفیسر چیاؤ مو کہتے ہیں کہ حکام دراصل سیاسی مواد پر کنٹرول چاہتے ہیں کیونکہ بعض براہ راست نشریے اور فورمز سیاسی اورسماجی امور شامل کر سکتے ہیں اور یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس پر طویل عرصے سے حکام کڑی کارروائی کی کوشش کرتے آئے ہیں۔
پروفیسر چیاؤ مزید کہتے ہیں کہ براہ راست آن لائن نشریات پر تازہ ترین پابندی انٹرنیٹ پر وسیع پیمانے پر لاگو کنٹرول کے مطابق ہےجو آن لائن اور آف لائن اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کے لیے حکام نے وضح کیے ہیں۔
تاہم پروفیسر چیاؤ کے مطابق تفریح کی صنعت پر اس کے اثرات محدود ہی رہیں گے کیونکہ نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز سیاسی مواد کی حمایت نہیں کریں گے جبکہ حکام اُن سے سیاسی مواد پر ہی پابندی لاگو کرنے کا تقاضا کریں گے۔