حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے محقق ویلیم نی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کارکنوں پر الزامات ’’بعید از قیاس‘‘ ہیں۔
چین کی ایک عدالت نے انسانی حقوق کے ان تین کارکنوں کو چھ سال سے زائد قید کی سزا سنائی ہے جو کہ سرکاری عہدیداروں سے اپنے اثاثے ظاہر کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔
یہ سزا وسطی صوبہ جیانگژی کی ایک عدالت نے سنائی جو کہ بیجنگ کی طرف سے ایسے کارکنوں یا ایک تنظیم نیو سیٹیزن موؤمنٹ کے خلاف ایک سالہ کارروائیوں میں سے شدید ترین ہے۔
لیو پینگ اور وی زونگپنگ نامی کارکنوں کو ’’قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف جنگ کرنے، انہیں کمزور کرنے کے لیے غلط طریقے استعمال کرنے اور عوامی نظم و ضبط کو خراب کرنے میں ملوث پائے جانے پر ساڑھے چھ سال کی قید جبکہ لی سیھوا کو نقص عامہ خراب کرنے پر تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔
یہ معلومات لی پینگ کے وکیل سی ویجیانگ نے فراہم کیں اور ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ ’’درست نہیں‘‘۔
حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے محقق ویلیم نی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کارکنوں پر الزامات ’’بعید از قیاس‘‘ ہیں۔
’’یہ بڑا پریشان کن معاملہ ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ پہلے تو ان کے خلاف مقدمہ بھی چلنا چاہئے تھا۔ یہ ضمیر کے قیدی ہیں پس ساڑھے چھ سال یا تین سال کی قید دراصل شرمناک معاملہ ہے۔‘‘
چین نیو سیٹیزن موؤمنٹ کے تقریباً ایک درجن افراد کو گرفتار کر چکا ہے۔
نی کے مطابق بیجنگ اس تنظیم کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے کیونکہ یہ ان معاملات پر بات کرتی ہے جنہیں عوام کی حمایت بھی حاصل ہوتی ہے۔
’’اسے (بدعنوانوں کے خلاف کارروائی کے مطالبے کو) تنظیم کے خلاف نہیں استعمال ہونا چاہیے جو کہ صرف حکومت سے آئین کی پاسداری کا مطالبہ کررہے ہیں تاکہ سماجی عدل کو فروغ دیا جا سکے۔‘‘
اپریل میں تنظیم کے بانی زو زییانگ کو چار سال کی قید کی سزا دی گئی تھی۔ کئی دوسرے کارکنوں کو ماضی میں ایسی سزائیں دی جا چکی ہیں۔
اس کارروائی کا آغاز اس وقت ہوا جب کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ زی جنپنگ نے سرکاری بدعنوانی کے خلاف وسیع پیمانے پر مہم شروع کی۔
یہ سزا وسطی صوبہ جیانگژی کی ایک عدالت نے سنائی جو کہ بیجنگ کی طرف سے ایسے کارکنوں یا ایک تنظیم نیو سیٹیزن موؤمنٹ کے خلاف ایک سالہ کارروائیوں میں سے شدید ترین ہے۔
لیو پینگ اور وی زونگپنگ نامی کارکنوں کو ’’قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف جنگ کرنے، انہیں کمزور کرنے کے لیے غلط طریقے استعمال کرنے اور عوامی نظم و ضبط کو خراب کرنے میں ملوث پائے جانے پر ساڑھے چھ سال کی قید جبکہ لی سیھوا کو نقص عامہ خراب کرنے پر تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔
یہ معلومات لی پینگ کے وکیل سی ویجیانگ نے فراہم کیں اور ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ ’’درست نہیں‘‘۔
حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے محقق ویلیم نی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کارکنوں پر الزامات ’’بعید از قیاس‘‘ ہیں۔
’’یہ بڑا پریشان کن معاملہ ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ پہلے تو ان کے خلاف مقدمہ بھی چلنا چاہئے تھا۔ یہ ضمیر کے قیدی ہیں پس ساڑھے چھ سال یا تین سال کی قید دراصل شرمناک معاملہ ہے۔‘‘
چین نیو سیٹیزن موؤمنٹ کے تقریباً ایک درجن افراد کو گرفتار کر چکا ہے۔
نی کے مطابق بیجنگ اس تنظیم کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے کیونکہ یہ ان معاملات پر بات کرتی ہے جنہیں عوام کی حمایت بھی حاصل ہوتی ہے۔
’’اسے (بدعنوانوں کے خلاف کارروائی کے مطالبے کو) تنظیم کے خلاف نہیں استعمال ہونا چاہیے جو کہ صرف حکومت سے آئین کی پاسداری کا مطالبہ کررہے ہیں تاکہ سماجی عدل کو فروغ دیا جا سکے۔‘‘
اپریل میں تنظیم کے بانی زو زییانگ کو چار سال کی قید کی سزا دی گئی تھی۔ کئی دوسرے کارکنوں کو ماضی میں ایسی سزائیں دی جا چکی ہیں۔
اس کارروائی کا آغاز اس وقت ہوا جب کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ زی جنپنگ نے سرکاری بدعنوانی کے خلاف وسیع پیمانے پر مہم شروع کی۔