چین نے ایک معروف صحافی کو "ریاستی راز افشا" کرنے کے الزام میں حراست میں لے لیا ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا نے جمعرات کو کہا کہ گاؤ یو کو 24 اپریل کو حراست میں لیا گیا۔ ان پر شبہ تھا کہ انھوں نے ایک سرکاری دستاویز کی نقل غیر قانونی طریقے سے حاصل کر کے بین الاقوامی میڈیا کو فراہم کی۔ دستاویزات سے متعلق تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔
سترسالہ گاؤ کو سرکاری ٹی وی پر اعتراف کرتے ہوئے دکھایا گیا کہ انھوں نے جو کیا وہ "انتہائی غلط" تھا۔
" میں مانتی ہوں کہ جو میں نے کیا کہ وہ قانون کی خلاف ورزی اور میرے ملک کے مفادات کے لیے نقصان دہ تھا۔ میں نے جو کیا وہ انتہائی غلط تھا۔ میں اس سے خلوص نیت اور صدق دل سے سبق سیکھوں گی اور میں اپنا قصور مانتی ہوں۔"
گاؤ کو متحرک طبع اور صحافتی ذمہ داریوں کی وجہ سے ایک بار پھر بھی جیل جانا پڑا تھا۔ 1993ء میں انھیں ایسے ہی الزام کے تحت چھ ماہ قید کی سزا ہوئی تھی۔
وہ ہفت روزہ "اکنامکس ویکلی" کی سابق نائب مدیر بھی رہ چکی ہیں اور اظہار رائے کے خلاف کمیونسٹ پارٹی کی مہم پر بھی وہ قلمکاری کرتی رہی ہیں۔
گاؤ تیانانمین اسکوائر کی جمہوری تحریک کی حامی ہیں۔ اس تحریک کے مظاہرین کو 1989ء میں چین کے فوجیوں نے کچل کر رکھ دیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس واقعے میں مرنے والوں کی تعداد سینکڑوں سے ہزاروں تک تھی۔
چین میں حکام ہر سال چار جون کو تیانانمین کے واقعے کی برسی سے پہلے حکومت کے ناقدین کو حراست میں لینا شروع کر دیتے ہیں۔
رواں ہفتے ہی انسانی حقوق کے علمبردار اور دیگر چار سرگرم کارکنوں کو اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ بیجنگ میں تیانانمین کی یاد میں ہونے والے ایک سیمینار میں شرکت کرکے فارغ ہوئے تھے۔
امریکہ محکمہ خارجہ نے بدھ کو چین میں ان حراستوں پر "گہری تشویش" کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کے ان ناقدین کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
25 سال قبل چین کے فوجی ٹینکوں کی مدد سے تیانانمین میں طلبا کی قیادت میں ہونے والے مظاہرے پر چڑھ دوڑے تھے۔ اس کریک ڈاؤن کی دنیا بھر میں شدید مذمت کی گئی تھی۔
چین اب بھی اس واقعے کو "باغیوں کے خلاف" کارروائی قرار دیتا ہے اور اس نے کبھی بھی ایسی تحریک کو دبانے کے لیے استعمال ہونے والے "غلط اقدامات" کا اقرار نہیں کیا۔
چین نے کبھی بھی کریک ڈاؤن کی تفصیلات اور اس میں مرنے والوں کی تعداد نہیں بتائی۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا نے جمعرات کو کہا کہ گاؤ یو کو 24 اپریل کو حراست میں لیا گیا۔ ان پر شبہ تھا کہ انھوں نے ایک سرکاری دستاویز کی نقل غیر قانونی طریقے سے حاصل کر کے بین الاقوامی میڈیا کو فراہم کی۔ دستاویزات سے متعلق تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔
سترسالہ گاؤ کو سرکاری ٹی وی پر اعتراف کرتے ہوئے دکھایا گیا کہ انھوں نے جو کیا وہ "انتہائی غلط" تھا۔
" میں مانتی ہوں کہ جو میں نے کیا کہ وہ قانون کی خلاف ورزی اور میرے ملک کے مفادات کے لیے نقصان دہ تھا۔ میں نے جو کیا وہ انتہائی غلط تھا۔ میں اس سے خلوص نیت اور صدق دل سے سبق سیکھوں گی اور میں اپنا قصور مانتی ہوں۔"
گاؤ کو متحرک طبع اور صحافتی ذمہ داریوں کی وجہ سے ایک بار پھر بھی جیل جانا پڑا تھا۔ 1993ء میں انھیں ایسے ہی الزام کے تحت چھ ماہ قید کی سزا ہوئی تھی۔
وہ ہفت روزہ "اکنامکس ویکلی" کی سابق نائب مدیر بھی رہ چکی ہیں اور اظہار رائے کے خلاف کمیونسٹ پارٹی کی مہم پر بھی وہ قلمکاری کرتی رہی ہیں۔
گاؤ تیانانمین اسکوائر کی جمہوری تحریک کی حامی ہیں۔ اس تحریک کے مظاہرین کو 1989ء میں چین کے فوجیوں نے کچل کر رکھ دیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس واقعے میں مرنے والوں کی تعداد سینکڑوں سے ہزاروں تک تھی۔
چین میں حکام ہر سال چار جون کو تیانانمین کے واقعے کی برسی سے پہلے حکومت کے ناقدین کو حراست میں لینا شروع کر دیتے ہیں۔
رواں ہفتے ہی انسانی حقوق کے علمبردار اور دیگر چار سرگرم کارکنوں کو اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ بیجنگ میں تیانانمین کی یاد میں ہونے والے ایک سیمینار میں شرکت کرکے فارغ ہوئے تھے۔
امریکہ محکمہ خارجہ نے بدھ کو چین میں ان حراستوں پر "گہری تشویش" کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کے ان ناقدین کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
25 سال قبل چین کے فوجی ٹینکوں کی مدد سے تیانانمین میں طلبا کی قیادت میں ہونے والے مظاہرے پر چڑھ دوڑے تھے۔ اس کریک ڈاؤن کی دنیا بھر میں شدید مذمت کی گئی تھی۔
چین اب بھی اس واقعے کو "باغیوں کے خلاف" کارروائی قرار دیتا ہے اور اس نے کبھی بھی ایسی تحریک کو دبانے کے لیے استعمال ہونے والے "غلط اقدامات" کا اقرار نہیں کیا۔
چین نے کبھی بھی کریک ڈاؤن کی تفصیلات اور اس میں مرنے والوں کی تعداد نہیں بتائی۔