|
چین نے ملک کی تیزی سے عمر رسیدہ ہونے والی آبادی پر زور دیا ہے کہ وہ کمیونٹی سروسز کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کریں۔
ان افراد سے کہا گیا ہے کہ وہ ملکی ترقی اور تعلیم سے لے کر کھیلوں تک کے شعبوں میں تعاون کریں۔
چین کی جانب سے یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حکام ملک میں سکڑتی ہوئی افرادی قوت کو تقویت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چین میں شرح پیدائش کم ہو رہی ہے جس سے نمٹنے کے لیے حال ہی میں حکومت نے ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز منظور کی ہے۔ ملک میں مسلسل دو برسوں سے آبادی میں کمی ہوئی ہے اور امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ کمی دہائیوں تک جاری رہی گی جس کی وجہ سے کم ہوتی ہوئی افرادی قوت پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق بڑھتی عمر کے لیے قائم ایک نیشنل پینل نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ دو دہائیوں سے زیادہ پہلے شروع کی گئی اپنی 'سلور ایج' اسکیم کو بہتر بنا رہے ہیں۔ تاکہ اس کا دائرہ کار معاشی اور سماجی ترقی کے مزید شعبوں تک بڑھایا جا سکے۔
شہری امور کی وزارت کا کہنا ہے کہ وسیع تر اقدام تمام بزرگوں کو تنازع میں ثالثی کرانے سے لے کر صحت اور تندرستی تک نچلی سطح کی سرگرمیوں میں مشغول کرے گا۔
وزارت کی جانب سے اپنی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ نچلی سطح پر گورننس میں حصہ لینے والے بزرگوں کے مثبت کردار کو اہمیت دی جائے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ وزارت کا مقصد ہے کہ 2028 تک بزرگوں کی سماجی شرکت اور تعاون میں اس اسکیم کا اہم کردار ہو۔
وزارت کی جانب سے کہا گیا کہ ان سرگرمیوں میں گشت کرنے سے لے کر بچوں اور بڑوں کی دیکھ بھال اور ڈس ایبل افراد کی مدد شامل ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ایک اور اہم سرگرمی دیہی علاقوں میں ایسے بچوں کی دیکھ بھال کرنا ہے جن کے والدین کام کے لیے بڑے شہروں میں ہوتے ہیں۔
SEE ALSO: چین میں ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی منظوری
انہوں نے ان میجر اسپورٹس فیسیلٹیز، ایونٹس اور اہم میٹنگز کے لیے بزرگ ورکرز کے لیے پوزیشنز مختص کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے جہاں رضاکاروں کو بھرتی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس چین میں پیدائش کی تعداد کم ہو کر 90 لاکھ تک آ گئی تھی اور اس میں مزید کمی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے افرادی قوت کم ہو رہی ہے۔
اقوامِ متحدہ نے پیش گوئی کی ہے کہ موجودہ شرح پیدائش کے باعث 2050 تک افرادی قوت 2010 کے اعداد و شمار کے مقابلے میں تقریباً 40 فی صد سکڑ جائے گی۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔