ملکی مسائل مشاورت سے حل کیے جائیں، چوہدری شجاعت

فائل

پاکستان کے سینئر سیاست دان اور حکمران اتحاد میں شامل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے وزیر اعظم عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ ملکی بحران کے حل کے لئے ماضی کے واقعات کو بھلا کر مسائل کو باہمی مشاورت سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین نے اپنے بیان میں عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جنگ گروپ کے چیف ایڈیٹر میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری، چینل 24 کی بندش اور دیگر اخبارات کے مسائل کو باہمی مشاورت سے حل کرنے کی کوشش کریں۔

مسلم لیگ ق کے سربراہ نے ماضی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوئے واقعات سے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔

چوہدری شجاعت حسین کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حکمران اتحاد میں اختلافات اور دوریوں کی باتیں ہو رہی ہیں اور ایک جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اتحاد سے باقاعدہ علیحدگی اختیار کرچکی ہے۔

چوہدری شجاعت سے گذشتہ سال مولانا فضل الرحمٰن کے اسلام آباد میں دھرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت حکومتی رہنما دھرنے کے شرکا پر دھاوا بولنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے کہ انہوں نے چوہدری پرویز الہٰی کے ذریعے وزیر اعظم کو ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیا اور احتجاجیوں پر دھاوا بولنے کا فیصلہ ٹل گیا۔

انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کے طلبا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار آمنے سامنے تھے اور حالات خراب ہونے کا شدید اندیشہ تھا، لیکن مسلم لیگ کے رہنماؤں کی باہمی سوچ پر عمل کرتے ہوئے معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہوا۔

چوہدری نے اپنے بیان میں ایک اور واقعے کا حوالہ دیا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف دی نیوز اخبار کی چیف ایڈیٹر ملیحہ لودھی پر غداری کا الزام لگا کر گرفتار کرنا چاہتے تھے، لیکن انہوں نے اس فیصلے کی بطور وزیر داخلہ مخالفت کی کہ اس سے صحافتی برادری کو غلط پیغام جائے گا۔

پاکستان مسلم لیگ اگرچہ ماضی میں بھی حکمران جماعت کے بعض فیصلوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرچکی ہے، تاہم چوہدری شجاعت کا کہنا ہے کہ وہ حکومتی اتحاد سے علیحدہ نہیں ہورہے۔

تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ چوہدری شجاعت نے ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیشہ دانشمندانہ اور آزاد رائے کا اظہار کیا ہے جس کی کچھ مثالوں کا ذکر ان کے بیان میں شامل ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کو یہ بیان پسند نہیں آئے گا اور تحریک انصاف و مسلم لیگ ق کے درمیان فاصلے بڑھتے جارہے ہیں۔

سینئر صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ اتحادی ہونے کے باوجود چوہدری برادران کی عمران خان سے آخری ملاقات کو ایک سال ہوچکا ہے اور گزشتہ ماہ بجٹ منظوری سے قبل مسلم لیگ ق نے وزیر اعظم کی جانب سے دیئے گئے عشائیے میں بھی شرکت سے اعلانیہ معذرت کی تھی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت اپنے حالیہ بیانات سے عمران خان کو یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ ان کی سیاسی حکمت عملی کے نتائج بھی درست نہیں آرہے اور میڈیا پالیسی کے نتیجے میں صحافتی برادری سے بھی دوریاں بڑھ رہی ہیں۔

تاہم، سہیل ورائچ کے بقول، حکومت اپنی قلیل اکثریت کے باعث اتحادی جماعت کو دور نہیں کرسکتی، جبکہ مسلم لیگ ق بھی علیحدگی کے لئے مناسب وقت کا انتخاب کرے گی اور دونوں جماعتیں مجبوری کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ چل رہی ہیں۔

مظہر عباس نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ چوہدری شجاعت کا بیان حکومت سے علیحدگی کی دھمکی نہیں بلکہ معاملات میں عدم مشاورت کے باعث عمران خان کو تنبیہ ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کے نتیجے میں مسائل کو بڑھا رہے ہیں نہ کہ کم کررہے ہیں۔

چوہدری شجاعت حسین نے چند ماہ قبل وائس آف امریکہ کے اس نمائندہ سے غیر رسمی گفتگو میں بتایا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان بطور اتحادی ان سے حکومتی فیصلہ سازی میں مشاورت نہیں کررہے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ انہیں اپنے مشورے اور آرا سے بذریعہ اخباری بیانات آگاہ کرتے رہیں گے۔

دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام نے چوہدری شجاعت کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ ق کے سربراہ ادھورا سچ نہیں بلکہ پورا سچ بیان کریں۔

جے یو آئی کے ترجمان حافظ حسین احمد کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دھرنے کے دوران چوہدری برادران کو ہمارے پاس بھیجنے والے عمران خان نہیں کوئی اور تھے، کیوں کہ حکومتی کمیٹی پرویز خٹک کی سرپرستی میں بنائی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ جے یو آئی سے مذاکرات کی جو امانت چوہدری برادران کے پاس ہے وہ اس سے قوم کو آگاہ کریں۔

خیال رہے کہ گذشتہ سال جے یو آئی کے اسلام آباد میں دھرنے کے دوران چوہدری برادران نے مذاکرات کے ذریعے مولانا فضل الرحمٰن کو واپس جانے پر قائل کیا تھا۔ تاہم، یہ معاملہ تاحال پوشیدہ ہے کہ یہ دھرنا کن شرائط پر ختم کیا گیا۔