پاکستان میں ستمبر کے وسط تک تمام تعلیمی ادارے مشروط طور پر بتدریج کھولنے اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں امتحانات لینے پر عائد پابندی نرم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کو کھولنے سے قبل ملک میں کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ لینے کا بھی عندیہ دیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ نیشنل کمانڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے صوبوں سے ہونے والی مشاورت کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملک میں تمام تعلیمی ادارے 15 ستمبر سے کھولے جائیں گے۔ تاہم، ان اداروں کو کھولنے سے قبل ملک میں کرونا وائرس سےمتعلق پیدا شدہ صحت کی صورتحال کو بھی مدنظر رکھا جائے گا اور صورتحال کا بغور جائزہ لینے کے بعد تسلی بخش صورت ہی میں تعلیمی ادراے کھولے جائیں گے۔
شفقت محمود کے مطابق وفاقی وزارت تعلیم تعلیمی اداروں کے لئے ایس او پیز تیار کرے گی جس کے لئے صوبائی حکومتوں سے تجاوزی طلب کرلی گئی ہیں۔ تاہم، اس پر عملدرآمد صوبائی حکومت اپنے مخصوص حالات کے مطابق کرنے کی ذمہ دار ہونگی۔ ایس او پیز کا اطلاق تمام تعلیمی اداروں بشمول جامعات پر بھی ہوگا اور صوبائی حکومتیں اس کی مانیٹرنگ کریں گی۔ اور ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کرنے پر اس تعلیمی ادارے کے خلاف کارروائی کی مجاز ہونگی جنہیں بند بھی کیا جاسکے گا۔
وفاقی وزیر نے مزید بتایا کہ جامعات کو ہدایات جاری کی جارہی ہیں کہ وہ عید الاضحٰی کے بعد پی ایچ ڈی کے طلبہ اور لیبارٹریز میں کام کرنے والے عملے اور طلبہ کو محدود پیمانے پر کیمپس میں آنے کی اجازت دے دیں۔ تاہم، اسکے طریقہ کار کا حتمی فیصلہ جامعات خود کریں گی۔ جبکہ اسی طرح تمام جامعات کو ان دوردراز علاقوں کے 30فیصد طلبا کو ہاسٹلز میں آنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
دوسری جانب، آل پاکستان پرائیویٹ اسکول فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا نے اپنے ایک بیان میں حکومت کی جانب سے سمتبر تک اسکولز اور بند رکھنے کے فیصلے کو مسترد کردیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اسکولوں کو فوری طور پر کھولنے کے احکامات جاری کئے جائیں، جبکہ اس مقصد کے لئے ایس او پیز پہلے ہی تیار کی جا چکی ہیں۔
ادھر آل سندھ پرائیویٹ اسکول مینجمنٹ ایسوسی ایشن کے صدر حمید خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی فیصلہ مبہم، غیر واضح اور تعلیم دشمنی پر مبنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں کو کھولنے میں اس قدر تاخیر سے اسکول انتطامیہ، اساتذہ کے ساتھ طلبا کا بے حد نقصان ہورہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک جانب حکومت ان کے معاشی نقصان کا ازالہ کرنے کو تیار نہیں جبکہ دوسری جانب اسکول مسلسل بند رکھنے کے احکامات سے اسکولز انتظامیہ شدید مالی دباو کا شکار ہے۔ اکثر اسکولز میں فیسز نہ دئیے جانے کے باعث اسٹاف کو تنخواہیں ادا نہیں کی جاسکی ہیں۔
حمید خان نے کہا کہ ایک جانب حکومت کا کہنا ہے کہ اس وائرس کے ساتھ زندہ رہنا سیکھنا ہوگا، جبکہ دوسری جانب تعلیم کے شعبے کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جارہا ہے، جبکہ دیگر کئی ممالک میں کرونا وائرس کے بعد احتیاطی تدابیر کے ساتھ اسکول اور کالج کھول دئیے گئے ہیں۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح اسکولوں سمیت تمام تعلیمی ادارے فوری کھولنے کا اعلان کیا جائے۔
نجی اسکولوں کی ایسوسی ایشنز کے مطابق، ملک بھر میں ایک لاکھ 25 ہزار سے زائد رجسٹرڈ اسکول ہیں جن میں تین کروڑ سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں جبکہ ملک میں غیر رجسٹرڈ اسکولوں کی تعداد بھی ہزاروں میں بتائی جاتی ہے۔
تعلیمی اداروں کو محدود پیمانے پر امتحانات لینے کی اجازت
واضح رہے کہ ملک بھر میں 13 مارچ سے تمام تعلیمی ادارے بند ہیں، جس کی وجہ سے تعلیمی اداروں، پروفیشنل ایسوسی ایشنز، مدارس کے امتحانات اور وہاں ایڈمیشنز ٹیسٹ بھی نہیں لئے گئے۔ وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ اس پابندی پر نرمی کرتے ہوئے جولائی کے دوسرے ہفتے سے امتحانات لینے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
اس مقصد کے لئے جامعات اور کالجوں کو کہہ دیا گیا ہے کہ مختصر دورانیے میں اپنے امتحانات کرائیں جس میں سماجی فاصلوں اور دیگر ایس او پیز پر عملدرآمد ممکن بنایا جائے۔