|
ویب ڈیسک _ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے پیر کو ہونے والے پہلے اجلاس میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے لیے قرارداد پیش کی گئی جس پر اسمبلی کی کارروائی ہنگامہ آرائی کی نذر ہو گئی۔
جموں و کشمیر ریاستی اسمبلی کے حالیہ انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی اسمبلی کا پہلا اجلاس پیر کو منعقد ہوا۔
ایوان میں ہنگامہ آرائی اُس وقت شروع ہوئی جب پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ایک رکن وحید پارا نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف ایک قرارداد پیش کی۔
ایوان میں موجود بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ارکان نے قرارداد کی شدید مخالفت کی اور نعرے بازی بھی کی۔ سیاسی جماعتوں کے ارکان کے شور شرابے کے سبب اجلاس کی کارروائی کچھ وقت کے لیے معطل بھی کرنا پڑی۔
ایوان میں ہنگامہ آرائی ہونے پر اسپیکر راحیم راتھر نے کہا کہ انہوں نے اب تک کوئی بھی قرارداد وصول ہی نہیں کی۔
اسپیکر راحیم راتھر کا تعلق حکمراں جماعت نیشنل کانفرنس سے ہے۔
منتخب وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ نے ایوان میں قرارداد پیش کیے جانے پر تنقید کی اور کہا کہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی آرٹیکل 370 پر قرار داد کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور یہ اقدام صرف کیمروں کو دکھانے کے لیے کیا گیا ہے۔
عمر عبد اللہ نے کہا کہ اسمبلی جموں و کشمیر کے عوام کے جذبات کی نمائندگی کرتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ عوام نے پانچ اگست 2019 کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا۔ اگر ایسا ہوتا تو اسمبلی انتخابات کے نتائج یکسر مختلف ہوتے۔
انہوں نے اسپیکر سے مشاورت کے بعد آرٹیکل 370 سے متعلق قرارداد لانے کا بھی امکان ظاہر کیا۔
واضح رہے کہ بی جے پی کی مرکزی حکومت نے پانچ برس قبل بھارتی آئین میں ترمیم کر کے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کا اطلاق منسوخ کر دیا تھا۔ حکومتی فیصلے کے بعد ریاست کو دو حصوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا تھا۔
اگست 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد حال ہی میں پہلے اسمبلی انتخابات ہوئے تھے جس میں حکمران اتحاد نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف اقدام کی حمایت کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
جموں و کشمیر میں انتخابات میں نیشنل کانفرنس کی کامیابی اور وزیرِ اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد عمر عبد اللہ نے تسلیم کیا تھا کہ بی جے پی سے آرٹیکل 370 کے دوبارہ اطلاق کی امید رکھنا بے وقوفی ہو گی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیشنل کانفرنس یا وہ اس ایشو کو زندہ رکھیں گے۔
بھارتی نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کے مطابق عمر عبد اللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی پر ان کا سیاسی مؤقف تبدیل نہیں ہوگا۔ ان کے بقول، جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے پر خاموشی اختیار نہیں کی جائے گی اور نہ ہی اس مسئلے کو دفن ہونے دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ جموں و کشمیر اسمبلی کی نسشتوں کی کُل تعداد 119 ہے جن میں سے 90 پر براہِ راست ووٹنگ کے بعد نمائندے منتخب ہو کر ایوان تک پہنچے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ریاستی حکومت کے قیام کے باوجود اسمبلی سے منظور ہونے والے قانون کو پلٹنے کا اختیار نئی دہلی کے پاس ہے جب کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی سیکیورٹی اور گورنر کی تعیناتی جیسے اہم فیصلے بھی نئی دہلی کے ہاتھ میں رہیں گے۔
یاد رہے کہ جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے آخری انتخابات 2014 میں ہوئے تھے۔ جون 2018 میں علاقائی جماعت پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخلوط حکومت کے خاتمے کے بعد ریاست کے گورنر نے اسمبلی کو تحلیل کر دیا تھا۔ اس طرح اسمبلی چھ سال کی مقررہ مدت پوری نہیں کرپائی تھی۔