پاکستانی محکمہ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ گلالئی اسماعیل کے والد کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پشاور میں پاکستانی قانون کے تحت سائیبر کرائم کے ایک کیس میں گرفتار کیا ہے اور پروفیسر اسمعیل اپنے دفاع کا حق استعمال کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد فیصل نے یہ بیان امریکی محکمہ خارجہ کے ٹویٹر اکاونٹ سےگزشتہ روز جاری کی گئی اس ٹویٹ کے بعد کیا ہے، جس میں گلالئی اسماعیل کے والد کو حراست میں لئے جانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اور پاکستانی حکومت پر زور دیا گیا تھا کہ شہریوں کے پر امن اجتماع، اظہار رائے اور قانونی دفاع کے حق کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی رہنما گلالئی اسماعیل کے والد پروفیسر اسماعیل کو پشاور کی مقامی عدالت نے 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔
یاد رہے کہ پروفیسر اسماعیل کو جمعرات کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پشاور ہائی کورٹ کے مرکزی دروازے سے اس وقت حراست میں لیا تھا جب وہ عدالت میں دائر درخواست کی سماعت ملتوی ہونے کے بعد گھر واپس جا رہے تھے۔
پروفیسر اسماعیل کے وکیل فضل الہی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے پروفیسر اسماعیل کے خلاف سائبر کرائم کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ انہیں جمعے کو عدالت میں پیش کر کے جوڈیشل ریمانڈ پر پشاور جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔
فضل الہی کا کہنا ہے کہ انہیں جمعرات کو رات گئے علم ہوا کہ پروفیسر اسماعیل کو ایف آئی اے کے اہلکاروں نے حراست میں لیا ہے۔
وکیل کے مطابق، پروفیسر اسماعیل کی ضمانت کے لیے درخواست دائر کردی گئی ہے، جس کی سماعت ہفتے کو ہو گی۔
پروفیسر اسماعیل کو حراست میں لیے جانے کے بعد امریکہ میں موجود ان کی بیٹی گلالئی اسماعیل نے ایک ٹوئٹ میں اس اقدام کو ریاستی دہشت گردی قرار دیا تھا۔
Past 24 hours were excruciatingly painful bcz of my father%27s abduction by the "unidentified men", but now that he has been reproduced to magistrate and sent to jail may I ask @ImranKhanPTI & @ShireenMazari1 if your police state knows the difference between "arrest and abduction"
— Gulalai_Ismail (@Gulalai_Ismail) October 25, 2019
پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں پروفیسر اسماعیل کی گرفتاری کی شدید مذمت کی اور کہا کہ اس گرفتاری کا مقصد ان کے خاندان کو ہراساں کرنا ہے۔
محسن داوڑ کا مزید کہنا ہے کہ پروفیسر اسماعیل کا پشتون تحفظ موومنٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہذا، ان کی گرفتاری غیر قانونی اور غیر انسانی ہے۔
محسن داوڑ کے بقول، پروفیسر اسماعیل کے خلاف نہ تو کوئی مقدمہ درج تھا اور نہ ان کے خلاف کوئی الزام تھا۔
رکن قومی اسمبلی کا مزید کہنا ہے کہ حراست میں لیے جانے کے بعد ان کے خلاف ایف آئی اے کے حکام نے مقدمہ درج کیا۔
صوبائی حکومت کے طرف سے ابھی تک پروفیسر اسماعیل کی گرفتاری اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بارے میں کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے، جب کہ ایف آئی اے پشاور کے اہل کار پروفیسر اسماعیل کی گرفتاری سے متعلق مؤقف دینے سے گریزاں ہیں۔
خیال رہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کی خاتون رہنما گلالئی اسماعیل لگ بھگ تین مہینے روپوش رہنے کے بعد پچھلے ماہ امریکہ پہنچ گئی تھیں۔
گلالئی اسماعیل کے خلاف ریاست مخالف مبینہ شرانگیز تقاریر کرنے اور ریاستی اداروں پرالزامات لگانے کے مقدمات درج کیے گئے تھے اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (اِی سی ایل) میں بھی شامل تھا۔
We are concerned by reports of the continued harassment of Gulalai Ismail’s family, and her father’s detention today. We encourage Pakistan to uphold citizens’ rights to peaceful assembly, expression, and due process. AGW
— State_SCA (@State_SCA) October 24, 2019
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے بھی گلالئی اسماعیل کے والد کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ایک ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں گلالئی اسماعیل کے اہل خانہ کو مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اپنے شہریوں کے انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔