انسانی حقوق کی تنظیموں نے برما کی فوج پرالزام لگایا ہے کہ وہ نسلی گروپوں کے عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑائیوں کے دوران اگلے محاذوں تک سامان پہنچانے کے لیے جیل کے قیدیوں کو مزدوروں کے طورپر استعمال کررہے ہیں۔
امریکہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ اور برما میں ایک نسلی گروپ کارن کی انسانی حقوق کی تنظیم نے بدھ کو جاری کی جانے والی اپنی مشترکہ رپورٹ میں انسانی حقوق کی خلاف وزریوں پر مبنی ان واقعات کی تفصیل جاری ہے جسے انہوں نے جنگی جرائم کا نام دیا ہے۔
مذکورہ رپورٹ 58 افراد کے انٹرویوز پر مشتمل ہے جو 2010ء اور موجودہ سال کے دوران فوج کے لیے سامان ڈھونے کاکام کرتے رہے اور کارن اور پیگو کے علاقوں میں فوجی کارروائیوں کے دوران وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
انہوں نے اپنے انٹرویوز میں بتایا کہ انہیں فوجیوں کی مار پیٹ اور تشدد کاسامنا کرنا پڑااور کئی افراد کی ہلاکتیں ان کے سامنے ہوئیں۔ انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو یہ بھی بتایا کہ بارودی سرنگیں بچھانے اور فوجیوں کو دشمن کی فائرنگ سے بچانے کے لیے قیدیوں سے انسانی ڈھال کا کام لیا گیا۔
مذکورہ افراد کا یہ بھی کہناتھا کہ بوقت ضرورت ان علاج معالجے سے انکار کیا گیا اور انہیں بہت کم خوراک اور پانی فراہم کیا گیا۔
برما کی فوج پر ماضی میں بھی قیدیوں اور عام شہریوں کو جنگ زدہ علاقوں میں سامان ڈھونے کا کام لینے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ لیکن ہیومن رائٹس واچ کی ایشیائی امور کی ڈپٹی ڈائریکٹر ایلین پیئرسن کا کہناہے کہ فرنٹ لائن پر قیدیوں سے کام کرانے کے واقعات نئی نوعیت کے ہیں جس سے فوج کے ظالمانہ کردار کی نشان دہی ہوتی ہے۔