برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر ایوان کی تقسیم کے بعد ایک مرتبہ پھر عام انتخابات ہو رہے ہیں جس کے لیے آج پولنگ جاری ہے۔
برطانیہ میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران یہ تیسرا موقع ہے کہ نئے انتخابات ہو رہے ہیں جسے برطانیہ کی تاریخ کا انتہائی اہم لمحہ قرار دیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر دو وزرائے اعظم استعفیٰ دے چکے ہیں جب کہ وزیر اعظم بورس جانسن نے نئے انتخابات کا اعلان کیا تھا۔
پارلیمان کی 650 نشستوں کے لیے تین ہزار سے زائد امیدوار میدان میں ہیں۔ پولنگ کا عمل مقامی وقت کے مطابق جمعرات کی صبح سات بجے شروع ہوا جو رات دس بجے تک جاری رہے گا۔
پولنگ کے لیے انگلینڈ، اسکاٹ الینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ میں چار ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے ہیں۔
برطانیہ ان دنوں شدید سردی کی لپیٹ میں ہے جب کہ بارش اور برف باری کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ووٹنگ ٹرن آؤٹ کم رہنے کا خدشہ ہے۔
یاد رہے کہ 2016 میں برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق ریفرنڈم ہوا تھا۔ عوام کی اکثریت نے یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تو اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے عہدے سے استعفیِٰ دے دیا، کیوں کہ وہ برطانیہ کے یورپی یونین کا حصہ رہنے کے حق میں تھے۔
SEE ALSO: بریگزٹ تنازع: برطانیہ کے پاس مزید کیا آپشنز ہیں؟ڈیوڈ کیمرون کے بعد تھریسامے نئی وزیر اعظم منتخب ہوئیں اور وہ پارلیمنٹ سے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں بل منظور نہ کرا سکیں اور انہوں نے بھی رواں سال جولائی میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ البتہ بورس جانسن کی بھی کوششیں ناکام رہیں اور وہ پارلیمان سے یورپی یونین سے علیحدگی کا بل منظور نہ کرا سکے۔
حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی اور حزب اختلاف لیبر پارٹی کے درمیان برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کے معاملے پر سب سے اہم اختلافی نکتہ برطانیہ میں شامل شمالی آئرلینڈ اور یورپی یونین کے رکن ملک آئرلینڈ کے درمیان سرحد کھلی رکھنے کا معاملہ تھا۔
مجوزہ معاہدے کے تحت شمالی آئرلینڈ برطانیہ کی کسٹم حدود میں رہے گا تاہم برطانیہ سے شمالی آئرلینڈ کے ذریعے آئرلینڈ اور یورپ جانے والے سامان پر ٹیکس وصول کیا جائے گا۔
یورپی یونین ماضی میں یہ یقین دہانی کرا چکی ہے کہ بریگزٹ کے بعد بھی یہ سرحد جزوی طور پر کھلی رہے گی۔ لیکن 'آئرش بیک اسٹاپ' نامی اس شرط کو برطانوی پارلیمان نے ملک تقسیم کرنے والا اقدام قرار دیتے ہوئے ماننے سے صاف انکار کر دیا تھا۔
یورپی یونین کی یقین دہانیوں کے باوجود برطانوی پارلیمان اس نکتے پر قائل نہیں ہوئی تھی۔
پارلیمان میں مسلسل ناکامی کے بعد بورس جانسن نے استعفیٰ تو نہیں دیا لیکن انہوں نے نئے انتخابات کرا کر عوام کی رائے لینے کو ترجیح دی۔
یاد رہے کہ کنزرویٹو پارٹی کو پارلیمان میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے نو نشستوں کے خسارے کا سامنا تھا۔ نئے انتخابات میں موجودہ نشستیں برقرار رکھتے ہوئے مزید نو نشستوں پر کامیابی کے بعد کنزرویٹو پارٹی یورپی یونین سے علیحدگی کا بل منظور کرانے کی پوزیشن میں آجائے گی۔
بورس جانسن نے انتخابات سے قبل اپنے آخری پیغام میں کہا ہے کہ عوام کے پاس جمعرات کو ایک موقع ہے کہ وہ تین سال سے جاری سیاسی ڈیڈ لاک اور غیر یقینی کی صورت حال کا خاتمہ کریں۔
حزبِ اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر کنزرویٹو پارٹی سے اختلاف رکھتی ہے۔ لیبر پارٹی کے سربراہ جیرمی کاربن کا مؤقف ہے کہ عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے پارلیمان میں فیصلے کیے جائیں۔