یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر برطانیہ اِن دنوں شدید بحران کا شکار ہے اور سابق وزیر اعظم تھریسامے کے بعد موجودہ وزیرِ اعظم بورس جانسن بھی بریگزٹ معاملے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے میں ناکام رہے ہیں۔
حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی کے چند باغی ارکان اور حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت لیبر پارٹی برطانیہ کے یورپی یونین سے کسی معاہدے کے بغیر علیحدگی کے خلاف ہے۔ جب کہ حزب اختلاف اور باغی حکومتی ارکان بدھ کو بریگزٹ کو مؤخر کرنے کے لیے ایک بل پارلیمان میں لارہے ہیں۔ جس کا مقصد وزیرِ اعظم بورس جانسن کو پابند کرنا ہے کہ وہ 31 جنوری تک یورپی یونین سے بریگزٹ معاہدے پر مذاکرات کریں۔
برطانوی پارلیمنٹ میں منگل کو وزیرِ اعظم بورس جانسن کو بغیر کسی معاہدے کے یورپی یونین سے علیحدگی سے روکنے کے لیے بل منظور کرانے کے پہلے مرحلے میں حکومت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
حکومت کو اس رائے شماری میں 301 کے مقابلے میں 328 ووٹوں سے شکست کا سامنا رہا۔
رائے شماری کے بعد وزیرِ اعظم بورس جانسن کا کہنا تھا کہ وہ انتخابات نہیں چاہتے۔ لیکن اگر قانون ساز بریگزٹ سے متعلق مذاکرات میں بے معنی تاخیر کریں گے تو انتخابات ہی واحد راستہ ہوگا۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ وہ تصدیق کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی مقررہ مدت سے متعلق بل پیش کریں گے۔
حزب اختلاف سمیت چند باغی حکومتی ارکان کا مؤقف ہے کہ کسی معاہدے کے بغیر یورپی یونین سے انخلا کی صورت میں برطانوی معیشت پر اس کے برے اثرات مرتب ہوں گے۔ جبکہ وزیر اعظم بورس جانسن کا کہنا ہے کہ وہ یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلا میں مزید تاخیر نہیں کریں گے۔
اس شکست کے بعد وزیرِ اعظم بورس جانسن کو بھی ویسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ جیسی کہ سابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے کو تھا۔ جو بریگزٹ پر قانون سازوں کی تین بار حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھیں۔
وزیرِ اعظم بورس جانسن نے چھ ہفتے قبل اس وعدے کے ساتھ عہدہ سنبھالا تھا کہ وہ یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے مضبوط لائحہ عمل اپنائیں گے۔ جو کہ برطانوی قانون سازوں کو بھی قابل قبول ہوگا۔
یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم نے حکومتی ارکان کو خبرداد کیا تھا کہ بریگزٹ کے معاملے پر پارٹی مؤقف کی مخالفت کرنے والے ارکان کو کنزر ویٹو پارٹی سے خارج کردیا جائے گا۔
اس شکست کے بعد کنزرویٹو پارٹی سے خارج ہونے والے ارکان میں سابق برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل کے پوتے نیکولس سومز اور دو سابق وزرائے خزانہ فلپ ہیمنڈ اور کینتھ کلارک شامل ہیں۔
برطانیہ کے پاس یورپی یونین سے انخلا کے لیے 60 روز سے بھی کم وقت ہے اور اپوزیشن کے اتحاد اور حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی کے ناراض اراکین وزیراعظم بورس جانسن پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ یورپی یونین سے علیحدگی کے اعلان کو مزید تین ماہ کے لیے مؤخر کردیں۔
واضح رہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق 2016 میں ہونے والے ریفرنڈم کے بعد برطانیہ میں سیاسی بحران کا آغاز ہوا تھا جو اب تک جاری ہے اور اسے دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی تاریخی کا بڑا بحران قرار دیا جارہا ہے۔
اس ریفرنڈم کے بعد اُس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔ جس کے بعد وزیرِ اعظم تھریسا مے نے حکومت قائم کی اور انہوں نے یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق کئی ماہ طویل مذاکرات کے بعد ایک معاہدے پر اتفاق کیا۔
تاہم برطانوی پارلیمان نے تھریسامے اور یورپی یونین کے درمیان ہونے والے معاہدے کو تین مرتبہ مسترد کیا۔ پارلیمان سے معاہدہ منظور نہ کرانے پر تھریسامے نے وزارت عظمی سے استعفی دے دیا تھا۔