برطانیہ کے قصبے ریڈنگ میں ہفتے کے روز ایک شخص نے چاقو کے وار کر کے تین افراد کو ہلاک اور تین کو شدید زخمی کر دیا۔
مقامی پولیس نے بتایا ہے کہ اس حملے کو دہشت گردی کے ایک واقعہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور اس کی تحقیقات دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی پولیس کو سونپی جا رہی ہیں۔
پولیس نے فی الحال حملے کا نشانہ بننے والوں کے نام افشا نہیں کیے۔
تھامس ویلی پولیس نے کہا ہے کہ حملے میں ملوث ایک 25 سالہ نوجوان کو موقع پر ہی حراست میں لے لیا، جس کے بعد انہیں کسی اور کی تلاش نہیں ہے۔
عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اس حملے کا یقینی طور پر کوئی محرک تھا۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جانے والے ایک ویڈیو پیغام میں برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ انہیں اس حملے سے دکھ ہوا اور دھچکا لگا ہے۔
I’m appalled and sickened that people should lose their lives in this way. Our thoughts are with the families and friends of the victims. Thank you to Thames Valley Police for their bravery in tackling the suspect. pic.twitter.com/BWgyODoIWM
— Boris Johnson #StayAlert (@BorisJohnson) June 21, 2020
ریڈنگ ایسٹ کے لیے پارلیمنٹ کے رکن میٹ روڈا نے کہا ہے کہ یہ ایک ششدر کر دینے والا حملہ تھا جو قصبے کے ایک خوبصورت تاریخی حصے کے پارک میں ہوا۔ یہ جگہ ریڈنگ ایبے اور ریڈنگ جیل کے کھنڈرات کے قریب ہے۔ ان دونوں کھنڈرات کا شمار تاریخی عمارتوں میں کیا جاتا ہے۔
اس حملے سے چند گھنٹے قبل اسی مقام پر نسلی تعصب کے خلاف کام کرنے والے ایک گروپ 'بلیک لائیوز میٹرز' کے تحت ایک مظاہرہ ہوا تھا، تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ اس حملے کا مظاہرے سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔
فروری میں لندن پولیس نے ایک بیس سالہ نوجوان سودش امان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا، جس نے نقلی باردوی جیکٹ پہن کر ایک مصروف شاہراہ پر دو افراد پر چاقو کے وار کیے تھے۔ بعد میں داعش نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔